اس کے پاس اپنے بچوں کو اڑنے کی عملی تربیت دینے کے لئے نہ تو کوئی اسپیس یا سہولت دستیاب ہوتی ہے اور نہ ہی وہ کچی تربیت کے ساتھ بچوں کو اڑنے کا کہہ سکتی ہے کیونکہ پہلی اڑان میں ناکامی کا مطلب پانی کی دردناک موت ہے
مزید کسی ٹرائی کےامکانات زیرو ہیں آج تک اگر کسی نے ابابیل کے کسی مرے ہوئے بچے کو کنوئیں میں دیکھا ہے تو بتا دےابابیل بچوں کے حصے کی تربیت بھی اپنی ذات پر کرتی ہے بچوں سے پہلے اگر وہ اپنے گھونسلے سے دن بھر میں 25 اڑانیں لیتی تھی تو بچے انڈوں سے نکلنے کے بعد 75 اڑانیں لیتی ہے یوں ماں اور باپ 150 اڑانیں لیتے ہیں تاکہ اپنے بچوں کا دل و دماغ اس یقین سے بھر دیتے ہیں کہ یہاں سے اڑ کر سیدھا باہر جانا ہے اور بس اور کوئی آپشن نہیں ہے ایک دن آتا ہے کہ بچہ ہاتھ سےنکلے ہوئے پتھر کی طرح گھونسلے سے نکلتا ہے اور سیدھا جا کر کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ جاتا ہےہماری اولاد ہمارے یقین میں سے اپنا حصہ پاتی ہے اگر ہم خود یقین اور عمل سے تہی دست ہونگے تو اولاد کو کیا دیں گے؟بچوں کو کہانیاں نہ سنایئے بلکہ عمل کرکے دکھایئے یقین کریں وہ جتنا آپ پر اعتماد کرتے ہیں دنیا کے کسی کتابی ہیرو پہ نہیں کرتے.
اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ لائیک اور شیئر کریں