ایک بار مولانا رومؒ کی شریکِ حیات نے اپنی ملازمہ کو سخت سزا دی۔ اتفاقاً مولانا بھی اس وقت تشریف لے آئے۔ بیوی کی یہ حرکت دیکھ کر بہت ناراض ہوئے اور غم زدہ لہجے میں فرمانے لگے۔ “تم نے خدا کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کیا۔ یہ اسی کی ذات پاک ہے جو غلاموں کو آقا اور آقاؤں کو غلام بنا دیتی ہے۔ ایک لمحے کے لئے اس وقت کا تصور کرو جب تم کنیز ہوتیں اور یہ عورت مالکہ کی حیثیت رکھتی، پھر تمہارا کیا حال ہوتا۔؟”
مولانا کی یہ اثر انگیز گفتگو سن کر شریک حیات نے اس ملازمہ کو آزاد کر دیا اور پھر جب تک زندہ رہیں، خادماؤں کو اپنے جیسا کھلاتیں اور پہناتیں یہاں تک کہ ہر معاملے میں محبت سے پیش آتیں۔مولانا رومؒ کا یہ سلوک انسانوں ہی کے لئے مخصوص نہیں تھا۔ آپ تو اس بارش کی طرح تھے جو سبزۂ گل کے ساتھ پتھر کی چٹانوں پر بھی برستی ہے۔ ایک بار امیرِ شہر معین الدین پروانہ کے یہاں محفل سماع جاری تھی۔ کسی معزز خاتون نے شرکائے مجلس کی تواضع کے لئے مٹھائی کے دو بڑے طباق بھیجے۔ بیشتر حاضرین کلامِ معرفت میں کھوئے ہوئے تھے۔ اتفاق سے ایک کتا محفل میں گھس آیا اور اس نے آتے ہی طباق میں منہ ڈال دیا۔اہل محفل میں سے کسی کی نظر پری تو اس نے بلند آواز میں کتے کو ڈانٹ کر بھگانا چاہا۔ مولانا رومؒ جو بہت دیرسے آنکھیں بند کئے سماع کی کیفیت میں گم تھے۔ چیخ سن کر چونک پڑے اور جب یہ منظر دیکھا تو اس شخص کو ہاتھ کے اشارے سے روک دیا جو کتے کو بھگانے کی کوشش کر رہا تھا۔کتے نے گھبرا کر شیرینی کھانی شروع کر دی اور پھر کچھ مٹھائی کے دانے منہ میں دبا کر محفل سے چلا گیا کتے کے جانے کے بعد مولانا رومؒ نے فرمایا۔ “اس کی بھوک تم لوگوں کے مقابلے میں تیز تھی اس لئے مٹھائی پر بھی اس کا حق زیادہ تھا۔” ایک بار مولانا رومؒ اپنے مریدوں کے ہمراہ ایک تنگ گلی سے گزر رہے تھے۔
اتفاق سے وہاں ایک کتا اس طرح سو رہا تھا کہ راستہ بند ہو گیا تھا۔ مولانا چلتے چلتے رک گئے۔ اچانک ایک شخص جو مولانا رومؒ کو جانتا تھا گلی کی دوسری جانب سے آ رہا تھا۔ اس نے مولانا کو کھڑے دیکھ کر کتے کے پتھر مارا۔ وہ چیختا ہوا بھاگ گیا۔۔۔ راستہ تو صاف ہو گیا لیکن مولانا کے چہرے پر دلی تکلیف کے آثار صاف نظر آ رہے تھے۔ جب وہ شخص قریب آیا تو آپ نے اس سے فرمایا۔ “اے بندۂ خدا! تو نے ایک جانور کی دل آزاری کر کے کیا پایا؟ میں کچھ دیر اس کے جاگنے کا انتظار کر لیتا۔”