ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

لوگ ساری دنیا سے اپنے راز چھپا سکتے ہیں مگر ان کے کرتوت ڈرائیوروں سے چھپے نہیں رہ سکتے، بینظیر بھٹو اور نواز شریف کا ڈرائیور رہنے والے شخص کے چونکا دینے والے انکشافات، سینئر صحافی جاوید چوہدری سے اسکی کیا بات ہوئی؟

datetime 15  ‬‮نومبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پاکستان کے معروف کالم نگار اور سینئر صحافی و تجزیہ کار جاوید چوہدری نے 2013میں الیکشن کے بعد ایک کالم لکھا تھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ لوگ ساری دنیا سے اپنے راز چھپا سکتے ہیں مگر انکے کرتوت ڈرائیوروں سے چھپے نہیں رہ سکتے، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کا ڈرائیور رہنے والے شخص کے دنگ کر ڈالنے والے انکشافات ۔۔۔۔۔میں نے ڈرائیور سے پوچھا ’’ آپ کتنے وزرائے اعظم

کے ساتھ ڈیوٹی کر چکے ہیں‘‘اس نے سرکھجایا اور بولا ’’ میں سات وزیراعظموں کا ڈرائیور رہ چکا ہوں‘ میں نے تین درجن سے زائد عالمی لیڈروں کو بھی ائیرپورٹ سے ایوان صدر‘ وزیراعظم ہاؤس اور وہاں سے واپس ائیرپورٹ پہنچایا‘‘ میں نے اس سے پوچھا’’کیا آپ نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے ساتھ بھی کام کیا‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’ دونوں کے ساتھ دونوں ادوار میں کام کیا‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف میں کیا فرق تھا‘‘ وہ مسکرایا اور اس نے دونوں کی شخصیت کا تجزیہ شروع کر دیا‘ ہم لوگ پوری دنیا سے چھپ سکتے ہیں‘ ہم خود کو اپنے دوستوں اور دشمنوں تک سے چھپا سکتے ہیں اور ہم دنیا کو جعلی اور نقلی مسکراہٹ سے بھی بہلا سکتے ہیں مگر ہم خود کو اپنے ڈرائیوروں سے نہیں چھپا سکتے‘ ہم لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہیں‘ ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ان پر مسکراہٹیں نچھاور کرتے ہیں مگر ہم جوں ہی اپنی گاڑی میں بیٹھتے ہیں‘ ہم مسکراہٹوں‘ شکریئے اور بائی بائی کے ماسک اتار کر سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں اور ہمارا اصل چہرہ پوری طرح ننگا ہو جاتا ہے‘ہمارا اصل سامنے آ جاتا ہے اوراس اصل کا پہلا گواہ ہمارا ڈرائیور ہوتا ہےآپ دنیا بھر کے ڈرائیوروں کی عادتیں نوٹ کیجیے‘ آپ کو ان میں تین چیزیں مشترک ملیں گی‘ آپ جوں ہی گاڑی میں بیٹھیں گے ‘ ڈرائیور بیک مرر سے آپ کے چہرے کو

غور سے دیکھیں گے‘ یہ اس وقت آپ کے چہرے کا ننگا پن دیکھ رہے ہوں گے‘ یہ آپ کا اصل روپ دیکھ رہے ہوتے ہیں‘ دو‘ یہ جب بھی کسی جگہ رکتے ہیں‘یہ گاڑی سے اتر کر دوسرے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور یہ دونوں چند لمحوں میں آپس میں اپنی معلومات کا تبادلہ کر لیتے ہیں‘ یہ اس سفر کے دوران اپنے صاحب کے بارے میں جو محسوس کرتے ہیں‘ یہ نہایت ایمانداری سے وہ سب

کچھ اپنے ڈرائیور بھائی کو بتا دیتے ہیں اور وہ یہ معلومات شام تک پورے شہر تک پہنچا دیتا ہے اور تین‘ڈرائیوروں کی ججمنٹ بہت تیز ہوتی ہے‘ آپ پوری دنیا کو دھوکہ دے سکتے ہیں مگر آپ اپنے ڈرائیور کو دھوکہ نہیں دے سکتے کیونکہ یہ چہرے پڑھنے کا ماہر ہوتا ہے‘ یہ دھوکے باز‘ جھوٹے‘ فریبی اور اچھے‘ نیک اور ایماندار شخص کو فوراً پہچان جاتا ہے لہٰذا آپ اگر کسی

شخص کے بارے میں اصل اور مکمل معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اس کے ڈرائیور کو اعتماد میں لینا چاہیے اور وہ آپ کو جو معلومات دے گا وہ سو فیصد سالڈ ہوں گی۔مجھے چند سال قبل وزیراعظم ہاؤس کے ایک ڈرائیور سے ملاقات کا موقع ملا‘ یہ کسی کام کے سلسلے میں میرے پاس آیا تھا‘ میں نے اسے پاس بٹھا لیا اور اس کے موجودہ اور سابق صاحبوں کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا‘

وہ آہستہ آہستہ بتاتا چلا گیا اور میں حیران ہوتا گیا‘میں نے اس سے محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے بارے میں خصوصی طور سے پوچھا‘ اس کا کہنا تھا محترمہ بے نظیر بھٹو بہت ڈھاڈی(سخت) خاتون تھیں‘ لوگ ان سے بہت ڈرتے تھے‘ وہ درجنوں لوگوں کی موجودگی میں اپنے اسٹاف کو جھڑک دیتی تھیں‘ انھوں نے ایک بار اپنے پرنسپل سیکریٹری کو ایک قمیض دی اور میچنگ دوپٹے

خریدنے کا حکم دے دیا‘ وہ بے چارہ اس معاملے میں کورا تھا‘وہ دو تین دوپٹے خرید لایا مگر محترمہ کو پسند نہ آئے چنانچہ انھوں نے گاڑی میں میرے سامنے انھیں جھاڑ پلا دی‘ وہ ائیر پورٹ جاتے ہوئے راستے میں گاڑی رکوا کر ناپسندیدہ افسروں کو نیچے بھی اتار دیتی تھیں جب کہ میاں نواز شریف ان کے برعکس ایک نرم طبع انسان تھے ‘غصہ پی جاتے تھے‘میں نے میاں نواز شریف سے متعلق

کوئی دلچسپ واقعہ سننے کی درخواست کیاس نے ہنس کر بتایا‘ یہ 1992ء کا واقعہ ہے‘ سعید مہدی صاحب اس وقت راولپنڈی ڈویژن کے کمشنر تھے اور میاں نواز شریف وزیر اعظم اور محترمہ بے نظیر بھٹو اپوزیشن لیڈر تھیں‘ بی بی ان دنوں میاں نواز شریف کے خلاف راولپنڈی اور اسلام آباد میں جلوس نکالتی تھیں‘یہ لانگ مارچ بھی کر دیتی تھیں‘میاں صاحب ان جلوسوں سے بہت تنگ تھے‘

محترمہ نے ایک دن راولپنڈی میں جلوس نکالنے کا اعلان کر دیا‘ میاں نواز شریف نے سعید مہدی کو حکم دیا ’’ آپ بی بی کو روکیں گے‘‘ سعید مہدی نے پوری کوشش کی مگر بی بی انتظامیہ کو چکمہ دے کر راولپنڈی پہنچ گئیں‘انٹرنیشنل میڈیا بھی وہاں آ گیا اور اس نے بی بی کو بے تحاشا کوریج دی‘ میاں صاحب سعید مہدی صاحب سے ناراض ہو گئے‘ مہدی صاحب انھیں مل کر اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہتے تھے

مگر میاں صاحب ان سے ملاقات کے لیے راضی نہیں ہو رہے تھے‘ میاں صاحب کے سیکریٹری مہدی صاحب کے بارے میں سافٹ کارنر رکھتے تھے‘یہ روز سعید مہدی کا نام وزیراعظم کے ملاقاتیوں کی فہرست میں ڈال دیتے تھےلیکن میاں صاحب ان کا نام کاٹ دیتے تھے‘ سیکریٹری صاحب نے آخر میں میری مدد لی‘ انھوں نے مجھ سے کہا ‘میاں صاحب آج وزیراعظم ہاؤس سے ائیر پورٹ جائیں گے‘

تم نے مہدی صاحب کو گاڑی میں بٹھا لینا ہےسیکریٹری صاحب کو یقین تھا میاں نواز شریف مہدی صاحب کو کم از کم گاڑی سے نہیں اتاریں گے‘پروگرام کے مطابق میاں صاحب گاڑی میں بیٹھے اور دوسرا دروازہ کھول کر سعید مہدی بھی اندر بیٹھ گئے‘ اگلی سیٹ پر سیکریٹری صاحب بیٹھ گئے‘ ہم پرائم منسٹر ہاؤس سے باہر نکل آئے‘ پروٹوکول کے مطابق وزیراعظم اور صدر 24 منٹ میں ائیر پورٹ پہنچتے ہیں

اور انھیں وقت پر پہنچانا میری ذمے داری ہوتی ہے‘سعید مہدی صاحب نے گفتگو شروع کر دی‘ میاں نواز شریف نے دوسری طرف منہ پھیر لیا مگر مہدی صاحب بولتے رہے‘ میاں نواز شریف کی عادت ہے یہ جب غصے میں آتے ہیں تو ان کے کان سرخ ہو جاتے ہیں‘ میں بیک مرر میں دیکھ رہا تھا‘ میاں صاحب کے دونوں کان سرخ تھے‘ میں ڈر گیا‘سیکریٹری صاحب کا رنگ بھی فق تھا مگر سعید مہدی

مسلسل بول رہے تھے‘ اس دوران میاں نواز شریف کی برداشت جواب دے گئی‘ وہ مہدی صاحب کی طرف مڑے اورانھوں نے غصے سے کہا ’’ مہدی صاحب آپ کو میرے احسانات یاد نہیں آئے‘میں نے آپ کو کہاں سے اٹھایا اور کہاں پہنچا دیا‘‘ میاں صاحب اس کے بعد اپنے وہ تمام احسانات دہرانے لگے جو انھوں نے مہدی صاحب پر کیے تھے‘ مہدی صاحب چپ چاپ سنتے رہےوزیراعظم جب تھک گئے

تو مہدی صاحب نے ان کی طرف دیکھا اور میاں صاحب سے مخاطب ہوئے ’’ میاں صاحب یاد رکھیں مجھ پر یہ تمام مہربانیاں میرے اللہ نے کی ہیں‘ آپ صرف وسیلہ تھے‘ میں وسیلا بننے پر آپ کا صرف شکریہ ادا کر سکتا ہوں مگر میرا شکر صرف میرے اللہ کی امانت ہے‘‘یہ سن کر میاں نواز شریف نے چند لمحوں کے لیے منہ پھیر لیا ‘ وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے‘ پھر انھوں نے اچانک میرے

کندھے پر ہاتھ رکھا اور حکم دیا’’ گاڑی روک دو ‘‘ ہم لوگ اس وقت فیض آباد کے قریب پہنچ چکے تھے‘ فیض آباد کا پل ابھی نہیں بنا تھا اور راول ڈیم چوک سے لے کر فیض آباد تک ویرانہ ہوتا تھا‘میں نے گھبرا کر سیکریٹری صاحب کی طرف دیکھا‘ وہ بھی انتہائی پریشان تھے‘ ہم پروٹوکول کے ضابطوں کے مطابق وزیراعظم کی گاڑی راستے میں نہیں روک سکتے تھے چنانچہ میں گاڑی چلاتا رہا‘

میاں صاحب نے مجھے دوسری بار سخت لہجے میں حکم دیا’’ گاڑی روکو‘‘ میں نے سعید مہدی کی طرف دیکھا‘ان کے چہرے پر سکون اور اعتماد تھا‘ وہ ذہنی طور پر ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے‘ میں نے گاڑی روک دی‘ ہمارے رکتے ہی پروٹوکول اور سیکیورٹی کی تمام گاڑیاں رک گئیں‘ کمانڈوز نے نیچے کود کر پوزیشن سنبھال لی میاں صاحب گاڑی سے اترے

اور سڑک سے نیچے اتر گئے‘ سامنے جھاڑیاں تھیں‘ وہ جھاڑیوں میں چلے گئے‘ ہم خوف اور پریشانی کے عالم میں انھیں دیکھنے لگے‘وہ جھاڑیوں میں کیکر کے ایک درخت کے قریب رکے‘ کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور نماز شروع کر دی‘ وہ ننگی زمین پر رکوع بھی کر رہے تھے اور سجدے بھی اور ہم لوگ انھیں بلندی سے دیکھ رہے تھے‘ ہم میں سے کسی میں نیچے اترنے کی ہمت نہیں تھی‘

وزیراعظم نے دو نفل پڑھے‘ دعا کی اور واپس آ گئے‘ان کے کپڑے اور جوتے گندے ہو چکے تھے‘ ہمارا قافلہ چل پڑا‘ گاڑی میں مکمل خاموشی تھی‘ سیکریٹری صاحب نے ذرا سی ہمت کی اور گیلے ٹشوز کا ڈبہ ان کی طرف بڑھا دیا‘ میاں صاحب نے ایک ٹشو اٹھایا اور سعید مہدی سے مخاطب ہوئے ’’ مہدی صاحب میں معافی چاہتا ہوں‘ میں غصے میں بڑا بول بول گیا تھا‘آپ کی بات درست تھی

ہم انسان کسی کو کچھ نہیں دے سکتے‘ ہم صرف وسیلہ بنتے ہیں‘ مجھے محسوس ہوا میں تکبر میں آ گیا ہوں چنانچہ میں نے فوراً توبہ کے دو نفل ادا کیے‘ آپ بھی مجھے معاف کر دیں‘‘۔یہ سن کر سعید مہدی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ انھوں نے ٹشو اٹھا کر آنکھوں پر رکھ لیا‘ میاں صاحب ائیر پورٹ پر اترے‘ جہاز پر بیٹھے اور لاہور روانہ ہو گئے۔لیکن یہ واقعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرے ذہن میں نقش ہو گیا

۔مجھے یہ واقعہ وزیراعظم ہاؤس کے ڈرائیور نے یوسف رضا گیلانی کے دور میں سنایا تھا‘آج اس واقعے کو سنے ہوئے چار سال گزر گئے ہیں‘ میاں نواز شریف چند دن بعد تیسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھائیں گے‘یہ وزارت عظمیٰ کا تیسری بار حلف اٹھانے والے پہلے وزیراعظم ہوں گے‘ میں جب بھی ٹی وی یا اخبار میں یہ خبر دیکھتا ہوں تو مجھے یہ واقعہ یاد آ جاتا ہے اور میں سوچتا ہوں

’’ 2013ء کے میاں نواز شریف کون ہیں‘یہ اکتوبر 1999ء کے وہ میاں نواز شریف ہیں جو دو تہائی اکثریت کے تکبر میں مبتلا ہو کر مینار پاکستان بننے کی کوشش میں لگ گئے تھے یا پھر یہ 1992ء کے وہ نواز شریف ہیں جو تکبر سے بھرے چند فقرے بولنے کے بعد توبہ کے لیے ننگی زمین پر جھک گئے تھے‘ یہ میاں نواز شریف کون ہیں‘ ‘یہ سوال صرف سوال نہیں ہے یہ میاں نواز شریف کا مستقبل بھی ہے‘

اگر میاں نواز شریف نے ابتلاء کے 13برسوں سے یہ سیکھ لیا کہ اختیار اور اقتدار صرف اور صرف اللہ کی دین ہے تو پھر کوئی طاقت میاں صاحب کا راستہ نہیں روک سکے گی اور اگر یہ اس بار بھی مینڈیٹ کے زعم میں مبتلا ہو گئےتو پھر انھیں یوسف رضاگیلانی یا جنرل پرویز مشرف بنتے دیر نہیں لگے گی‘ اللہ کو عاجزی پسند ہے اور ہم عاجزی سے ہی اللہ کو راضی رکھ سکتے ہیں ورنہ بادشاہ تو فرعون بھی تھا

اور یہ میاں نواز شریف سے زیادہ مضبوط بھی تھا۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…