لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) وقت کو ترتیب دینے کے بارے میں پہلا جھوٹ یا غیر مثبت یقین یہ ہے کہ آپ بہت زیادہ منظم، سرد مزاج، رکھ رکھاؤ رکھنے والے اور غیر جذباتی ہیں۔ ترقی کے راستے کی یہ پہلی رکاوٹ ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وقت کو ترتیب دینے سے وہ اپنی آزادی اور بے ساختگی کو کھو دیں گے اور زمانے کے ساتھ نہیں چل پائیں گے اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اس طرح بہت سخت اور غیر لچکدار ہو جائیں گے۔ یہ اعتراضات کسی لحاظ سے سچ ثابت نہیں ہوتے۔
کئی لوگوں محض اپنے اس جھوٹ کو چھپانے کے لیے یہ سب کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو ان اصولوں کا پابند نہیں کر پاتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے غیر منظم لوگ آزاد نہیں ہیں کیونکہ جو لوگ اپنے خیالات اور افعال پر اختیار نہیں رکھ سکتے وہ کبھی آزاد نہیں ہو سکتے۔ بے عمل اور خود پر اختیار نہ ہونے کے باعث وہ ایسی جھوٹی افواہیں پھیلاتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وقت کو ترتیب دینے والا شخص زیادہ منظم ہوتا ہے اور اسے زندگی میں زیادہ مواقع، آزادی، آرام و سکون اور سچی خوشی ملتی ہے اور وہ خود پر زیادہ اختیار رکھتا ہے۔خود کو منظم کرنے کی ابتداء آپ آنے والے وقت کے بارے میں سوچ کر، حالات و واقعات کے نتائج کے بارے میں منصوبہ بندی کر کے اور خود کو مکمل طور پر تیار کر کے کر سکتے ہیں۔ جب آپ اپنے حالات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیں تو آپ مکمل طور پر آزاد ہو جاتے ہیں۔وقت کو ترتیب دینے کے بارے میں دوسری رکاوٹ ذہن کی منفی پروگرامنگ ہے جو آپ کو اپنے والدین اور بااثر لوگوں کی صحبت میں ملتی ہے۔ اگر آپ کے والدین یا دوسرے لوگ آپ کو کہیں کہ آپ بہت زیادہ سست، دیر کرنے والے یا جو کام شروع کیا اُسے دیر سے ختم کرنے والے ہیں تو ممکن ہے کہ آپ بڑے ہو کر بھی ایسے ہی ہوں کیونکہ آپ کا لاشعور ان ابتدائی احکامات کی اتباع کرے گا۔
ایسے رویے کے حامل بہت سے لوگ معذرت خواہانہ انداز میں کہتے ہیں ’میں ایسا ہی ہوں‘، ’میرے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے‘، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی سست اور غیر منظم یا بااختیار اور قابل پیدا نہیں ہوتا۔ وقت کو ترتیب دینے اور ذاتی قابلیت حاصل کرنے کا ہنر کچھ اصولوں پر بار بار عمل کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر ہم میں بُرا سیکھنے کی عادات موجود ہیں تو ہم انہیں اچھا سیکھنے کی عادات میں بدل سکتے ہیں۔وقت کو ترتیب دینے کے بارے میں تیسری بڑی ذہنی رکاوٹ اپنی ذات پر اعتماد کا فقدان ہے۔
کچھ لوگوں کو یہ یقین ہوتا ہے کہ ان میں وقت کو ترتیب دینے کی صلاحیت کا فقدان ہے اور اکثر لوگوں کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ یہ ایسی کمی ہے جو ان کو وراثت میں ملی ہے، لیکن وقت کو ناقص ترتیب دینے یا بہتر انداز میں ترتیب دینے کے کوئی بھی جین اور کروموسوم نہیں ہیں۔ کسی بھی شخص میں خود کو منظم کرنے کی وراثتی کمی نہیں ہوتی۔ یہاں ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں جس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ آپ کا ارادہ، آپ کی تحریک کا پیمانہ اور خواہش وہ عنصر ہیں جو آپ سے دنیا کا کوئی بھی کام کروا سکتے ہیں۔
تصور کریں کوئی شخص اگلے تیس دن میں انتہائی بہتر ترتیب دینے پر آپ کو دس لاکھ روپے دے گا۔ تصور کریں آپ کی نگرانی کے لیے ہر جگہ کیمرے لگا دیے گئے ہیں۔ یقینا ان تیس دنوں میں آپ اپنے وقت اور صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں استعمال کریں گے اور آپ کی دن بھر کی ترجیحات اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کو استعمال میں لا کر بہتر نتائج دینا ہے۔ ہر روز آپ کو احساس ہو گا کہ آپ کی بہتر انداز میں استعمال کی گئی صلاحیتیں آپ کو دس لاکھ روپے کا حقدار ٹھہرا دیں گی۔
آپ ان تیس دنوں میں کتنے متحرک ہوں گے اور کس بہتر انداز سے اپنی صلاحیتوں کو استعمال میں لائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ دس لاکھ روپے حاصل کرنے کی خاطر دنیا کے متحرک ترین انسان بن جائیں اور اپنی صلاحیتوں کو استعمال میں لا کر انعام جیت جائیں گے۔ آپ کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ ایک مہینے کی جہد مسلسل، آپ کی وقت کو ترتیب دینے کی صلاحیتیں اور دوسری کئی صلاحیتیں آپ کی ذات کا حصہ بن جائیں گی اور آپ ساری زندگی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرکے اس میں بہتری لاتے جائیں گے۔