ایک خاتون سے ہوائی اڈے پر جہاز کے انتظار میں وقت ہی نہیں کٹ پا رہا تھا، کچھ سوچ کر دکان سے جا کر وقت گزاری کے لیے ایک کتاب اور کھانے کے لیے بسکٹ کا ڈبہ خریدا، واپس انتظار گاہ میں میں جا کر کتاب پڑھنا شروع کی اس عورت کے ساتھ ہی دوسری کرسی پر ایک اور مسافر بیٹھا کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا، ان دونوں کے درمیان میں لگی میز پر رکھے بسکٹ کے ڈبے سے جب خاتون نے بسکٹ اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا
تو اسے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ اس ساتھ بیٹھے مسافر نے بھی اس ڈبے سے ایک بسکٹ اٹھا لیا تھا، خاتون کا غصے کے مارے برا حال ہو رہا تھا، اس کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ تو وہ اس کے منہ پر اس بے ذوقی اور بے ادبی کے لیے تھپڑ تک مارنے کا سوچ رہی تھی، اس کی حیرت اس وقت دوچند ہو گئی جب اس نے دیکھا کہ جیسے ہی وہ ڈبے سے ایک بسکٹ اٹھاتی وہ مسافر بھی ایک بسکٹ اٹھا لیتا، غصے سے بے حال وہ اپنی جھنجھلاہٹ پر بمشکل قابو رکھ پا رہی تھی، جب ڈبے میں آخری بسکٹ آن پہنچا تو اب اس کے دل میں یہ بات جاننے کی شدید حسرت تھی کہ اب یہ بدتمیز اور بداخلاق شخص کیا کرے گا؟ کیا وہ اب بھی اس آخری بسکٹ کی طرف ہاتھ بڑھائے گا یا یہ آخری بسکٹ اس کے لیے رکھ چھوڑے گا؟ تاہم اس کی حیرت اپنے عروج پر جا پہنچی جب مسافر نے اس آخری بسکٹ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے آدھا خود اٹھا لیا اور آدھا اس کے لیے چھوڑ دیا تھا، خاتون کے لیے اس سے بڑھ کر اہانت کی گنجائش نہیں رہتی تھی، آدھے بسکٹ کو وہیں ڈبے میں چھوڑ کر، کتاب کو بند کرتے ہوئے، اٹھ کر غصے سے پاؤں پٹختی امیگریشن سے ہوتی ہوئی جہاز کی طرف چل پڑی، جہاز میں کرسی پر بیٹھ کر اپنے دستی تھیلے میں سے عینک نکالنے کے لیے کھولا تو یہ دیکھ کر حیرت سے اس کی جان ہی نکل گئی کہ اس کا خرید ہوا بسکٹ کا ڈبہ تو جوں کا توں تھیلے میں بند رکھا ہوا تھا، ندامت اور شرمندگی سے اس کا برا حال ہو رہا تھا، اسے اب پتہ چل رہا تھا کہ وہ ہوائی اڈے پر بسکٹ اس شخص کے ڈبے سے نکال کر کھاتی رہی تھی، اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ شخص کس قدر مہذب اور رحم دل انسان تھا جس نے کسی شکوے اور ہچکچاہٹ کے بغیر اپنے ڈبے سے اسے بسکٹ کھانے کو دیے تھے، وہ جس قدر اس موضوع پر سوچتی اسی قدر شرمندگی اور خجالت بڑھتی جا رہی تھی، اس شرمندگی اور خجالت کا اب مداوا کیا ہو سکتا تھا، اس کے پاس تو اتنا وقت نہ تھا کہ جا کر اس آدمی کو ڈھونڈے، اس سے معذرت کرے، اپنی بے ذوقی اور بے ادبی کی معافی مانگے یا اس کی اعلیٰ قدری کا شکریہ ادا کرے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ضروری نہیں کہ آپ کی قائم کی ہوئی رائے ہی ٹھیک ہو۔