قاضی حسین احمد پاکستانی سیاست اور عالم اسلام کا وہ تابندہ ستارہ تھے جن کو نہ صرف ملک میں نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا بلکہ ان سے نظریاتی حوالے سے شدید اختلاف رکھنے والے بھی ان کی شخصیت کے دیوانے تھے۔ اپنے اعلیٰ اخلاق و کردار کے باعـث پاکستانی سیاست میں نہایت اعلیٰ مقام رکھتے تھے، ان کے رعب اور دبدبہ سے کئی سیاستدان ان کے
سامنے کوئی غلط بات نہیں کر سکتے تھے۔ آپ نہایت حاضر دماغ اور نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی حالات حاضرہ پر عبور رکھتے تھے۔سینئر صحافی طارق عزیز نے ایک مرتبہ بتایا کہ بی بی سی والوں نے قاضی صاحب کا انٹرویو کرنا تھا،ہم نے قاضی صاحب سے ٹائم لیا،بہت تیکھے تیکھے سوال ہوئے،قاضی صاحب نے بہت تحمل سے جواب دئیے،جب انٹرویو کے بعد چائے پینے لگے تو ہمیں پشتو میں کہنے لگے ان کو بہت تیاری کروا کے لائے تھے آپ لوگ۔ایک دوست بتانے لگے کہ ایک مرتبہ قاضی صاحب کے ساتھ نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا،میںگھبرا رہا تھا کہ میری جراب پھٹی تھی ،انگوٹھا باہر نکلا ہوا تھا،لیکن میری حیرت کی انتہا ء نہ رہی جب دیکھا قاضی صاحب کے دونوں پاوں کے انگوٹھے جرابوں سے باہر تھے۔جب افغانستان میں تمام قیادت کو ایک میز پہ بٹھایا گیاتو افغان لیڈرشپ پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم جو آج بھی وزیراعظم ہیں نواز شریف کی کسی بات پہ یقین کرنے کو تیار نہیں تھی۔آئی جے آئی کی وجہ سے جنرل حمیدگل متحرک تھے۔لیکن افغان قیادت پاکستا ن آنے کو تیار نہیں تھی.خصوصی طیارہ بھیجا گیا،ضیاءالحق کے بیٹے اعجاز الحق کو ساتھ بھیجا گیا،لیکن کوئی بھی آنے کو تیار نہ ہوا،پھر قاضی حسین احمد گئےاور افغان لیڈر جن میں گلبدین حکمتیار بھی تھاوہ قاضی حسین احمد کے ساتھ ان کی گاڑی پہ پاکستان آئے۔ایک مرتبہ پروفیسر غفور نے بتایا کہ میاں نواز شریف نے انہیںپلاٹ دینے کی پیشکش کی۔پروفیسر صاحب کو جب میاں صاحب کنوینس نہ کر سکےتو فون بند کرنے سے پہلے بولے پروفیسر صاحب یہ جو باتیں میں نے آپ سے کی ہیں ان کا ذکر قاضی صاحب سے نہ کرنا۔