پوری دنیا میں لیڈرز‘ حکمرانوں‘ صدور‘ وزرائے اعظم اور وزراءکو جتنے تحائف یا گفٹس ملتے ہیں یہ گفٹس اور یہ تحائف سرکاری خزانے میں جمع کرا دئیے جاتے ہیں اور ان گفٹس پر ان ہیڈ آف سٹیٹس کا کوئی حق نہیں سمجھا جاتا۔ اس کی وجہ یہ سوچ ہے کہ یہ گفٹ ان لوگوں کو ان کی ذاتی حیثیت سے مل رہا ہے اور اگر یہ اس عہدے پر فائز نہ ہوتے تو انہیں ہر گز ہرگز یہ تحفہ نہ ملتا چنانچہ اس گفٹ کا اصل حقدار یہ لوگ نہیں ہیں بلکہ ان کا ملک ہے۔
یہ روایت یا یہ اصول اس وقت پوری دنیا میں موجود ہے لیکن آپ کو یہ جان کر یقینا خوشی ہو گی کہ اس اصول کے بانی حضرت عمر فاروق ؓتھے‘ آپ دنیا کے پہلے حکمران تھے جنہوں نےنہ صرف اس اصول کی بنیاد رکھی بلکہ پوری دنیا کو اس پر عمل کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس کی بیک گراﺅنڈ ایک دلچسپ واقعہ تھا۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں شام فتح ہوا تو حضرت عمرؓ اور روم کے بادشاہ کے درمیان سفارتی تعلقات شروع ہو گئے‘ ان تعلقات کے دوران ایک بار حضرت عمرؓنے اپنا ایک ایلچی روم کے بادشاہ کے پاس بھجوایا‘ جب یہ ایلچی روانہ ہونے لگا تو حضرت عمرؓ کی اہلیہ نے ایک بڑی سی بوتل میںعطرڈال کر اس کے حوالے کر دیا اوراسے حکم دیا ”تم یہ عطر میری طرف سے روم کی ملکہ کو دے دینا“ ایلچی نے حکم کی تعمیل کی‘ ملکہ نے عطر وصول کیا‘ بوتل میں سے عطر نکالا‘بوتل موتیوں سے بھری اور یہ بوتل حضرت عمر فاروق ؓ کی اہلیہ کیلئے بھجوا دی۔ موتیوں سے بھری ہوئی یہ بوتل جب عمر فارو ق ؓ کے گھر پہنچی تو آپ نے اس میں سے دو تین موتی نکال کر اپنی اہلیہ کے ہاتھ پر رکھے اور باقی موتی بیت المال میں جمع کرانے کا حکم دے دیا‘ اہلیہ نے عرض کیا ”امیر المومنین عطر تو میں نے خود اپنے پیسوں سے خرید کر بھجوایا تھا“
آپ نے جواب دیا ”یہ بات درست ہے لیکن آپ مجھے یہ بتائیے اگر آپ اسلامی ریاست کی امیر کی اہلیہ نہ ہوتی تو کیا ملکہ آپ کا عطر وصول کرتی اور کیا وہ اس کے جواب میں آپ کو موتیوں کی بوتل بھجواتی“ اہلیہ نے انکار میں سر ہلا دیا۔ آپ نے فرمایا ”یہ موتی آپ کو نہیں بھجوائے گئے تھے‘ یہ اسلامی ریاست کو بھجوائے گئے ہیں چنانچہ ان کا اصل ٹھکانہ بیت المال ہے“
یہ واقعہ آگے چل کر دنیا کے اس اصول کی بنیاد بنا جس کے تحت سرکاری عہدیداروں کو ملنے والے تمام گفٹس حکومت کا حق قرار دے دئیے گئے۔یہ حقیقت ہے سیاست اور حکومت جادو کی وہ چھڑی ہوتی ہے جس سے کوئی بھی غریب چند دنوں میں امیر بلکہ رئیس ہو سکتا ہے کیونکہ سرکار وہ پارس پتھر ہوتی ہے جو جس دھات کو چھو لے وہ سونا بن جاتی ہے لہٰذا تمام حکومتیں‘ تمام معاشرے‘ تمام ملک ایسے قوانین بناتے ہیں
جن کے ذریعے کاروباری سوچ کے حامل لوگوں کو سیاست اور حکومت سے دور رکھا جا سکے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے‘ اگر کاروباری لوگوں کو سیاست سے دور نہ رکھا تو سیاست ایک فیکٹری‘ ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور پورا پورا معاشرہ خراب ہو جاتا ہے۔