پاکستان کے معروف ادیب و دانشور اشفاق احمد مرحوم نے ایک بار پاکستان ٹیلی ویژن پر اپنے پروگرام زاویہ میںحضرت جنید بغدادیؒ کا قصہ سناتے ہوئےبتایا کہ حضرت جنید بغدادیؒ جن سے تصوف کی پوہ پوٹھی وہ دراصل صوفی بزرگ نہ تھےبلکہ خلیفہ بغداد کے دربار میں ایک پہلوان تھے، جیسے پاکستان کے ریسلر گاما پہلوان بہت مشور تھے اسی طرح جنید بغدادیؒ بھی بہت مشہور پہلوان تھے۔
ان کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی تیار ہی نہ ہوتا تھا ۔ اشفاق احمد مرحوم بتاتے ہیں کہ ایک بار دربار میں جنید بغدادیؒ بیٹھے ہوئے تھے ، دربار میں خلیفہ بھی موجود تھا۔ اسی دوران دربار میں ایک دبلا پتلا نوجوان جو جسمانی اعتبار سے فاقہ زدہ لگتا تھاآیااور خلیفہ سے مخاطب ہوا’’اے خلیفہ میں جنید کے ساتھ کشتی لڑنا چاہتا ہوں‘‘۔ دربار میں موجود تمام درباری ہنس پڑے اور کہا کہ ’’کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ‘‘ وہاں موجود لوگوں نے اس نوجوان کو سمجھایا کہ تو پہلے اپنے آپ کو تو دیکھ اور پھر جنید سے کشتی کی بات کر۔نوجوان نہ مانا اور جنید بغدادیؒ سے کشتی لڑنے پر مصر رہا اور ان سے کشتی کرنے کیلئے وہاں موجود لوگوں کو کہا کہ مجھے کچھ دائو ایسے آتے ہیںجو دنیا کا کوئی اور پہلوان نہیں جانتا ، یہ پہلوانی کے دائو مجھے وراثت میں منتقل ہوئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کا پہلوان جنید بغدادی ان کے سامنے نہ ٹھہر سکے گا۔اس موقع پر جنید بغدادیؒ جو یہ دربار میں موجود تھے نوجوان کی باتوں پر بہت حیران ہوئےاور کچھ دل میں پریشان بھی ہوئے کہ ایک دبلا پتلا نوجوان چند دائو جو اسے اس کے خاندان کی جانب سے منتقل ہوئے کے بل پر مجھے دعوت مبازرت دے رہا ، کچھ تو ایسا ہو گا اس میں کہ یہ مجھے کہیں ہرا نہ دے، مگر وہ ایک مشہور پہلوان تھے انہوں نے اس نوجوان کو کہا کہ ٹھیک ہے میں تیار ہوں۔
جنید بغدادیؒ کی جانب سے نوجوان کے کشتی کے چیلنج کو قبول کرنے کے بعد کشتی کا وقت مقرر ہو گیا، جگہ مقرر کر دی گئی، خلیفہ وقت اور اس کے تمام درباری وہاں پہنچ گئے، بغداد کے لوگ بھی آگئے۔ سب حیران تھے کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے،جنید بغدادی ؒ اور انکو کشتی کا چیلنج کرنے واوہ لاغر اور کمزور نوجوان دونوں آمنے سامنے کھڑے ہو گئے،
کشتی شروع ہونے سے قبل جیسے دو پہلوان جـذبہ خیر سگالی کے طور پر آپس میں مصافحہ کرتے ہیں اسی طرح دونوں نے ایک دوسرے کی جانب ہاتھ بڑھائے، جنید بغدادیؒ کا مضبوط اور بھاری ہاتھ جب مصافحہ کیلئے انہوں نے کمزور نوجوان کی طرف بڑھایا تو وہ تھوڑا پیچھے ہٹ گیا، اسی دوران اس نے عجیب حرکت کی اس نے ایک جست لگائی اور جنید بغدادیؒ کے گلے سے لپٹ کر لٹک گیا۔
جنید بغدادی سمیت سب لوگ حیران رہ گئے کہ یہ تو پہلوانی کا کوئی دائو نہیں ، یہ نوجوان کیا کر رہا ہے۔ اسی دوران اس نوجوان نے جنید بغدادیؒ کے کان کے پاس سرگوشی کے انداز میں کہا کہ ’’میں ایک سید زادہ ہوں اور سات دن سے بھوکا ہوںاور میرے پاس کوئی ذریعہ روزگار نہیں،اور یہ ڈھونگ میں نے اس لئے رچایا ہے کہ میں لوگوں کو کچھ دکھا سکوں اور میری عزت اب تمہارے ہاتھ میں ہے۔‘‘
اس واقعہ سے متعلق اشفاق احمد مرحوم کے علاوہ مولانا کوکب نورانی اوکاڑی اپنے ایک خطاب میں بیان کرتے ہیں کہ اس لاغر اور کمزور نوجوان نے حضرت جنید بغدادی ؒ سے کہا کہ میں رسولؐ کی اولاد میں سے ہوں اور میری دو بیٹیاں ہیں جن کی شادی کروانی ہیں مگر میں بیروزگار ہوں اور آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں کہ ان کی شادی کروا سکوں لہٰذا اگر تم ہار جائو گے تو میرا ڈنکا بج اٹھے گا
اور مجھے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا جس کی بدولت میں اپنی بیٹیوں کی شادی کروا سکوں گا۔جنید بغدادیؒ نے جب نوجوان سے یہ سنا تو پیٹھ کے بل گر پڑے اور یہ محسوس کروایا کہ اس نوجوان کے اس دائو کی وجہ سے وہ گر پڑے ہیں۔نوجوان جنید بغدادیؒ کے گرنے کے بعد ان کے سینے پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔وہاں موجود لوگ ہکا بکا رہ گئے کہ یہ سب کیسے ہو گیا، ایک کمزور اور لاغر
نوجوان نے اتنے طاقتور پہلوان کو چت کر دیا۔جنید بغدادی نے اپنی شکست تسلیم کر لیاور کہا کہ میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ اس نوجوان کو واقعی ایک ایسا دائو آتا ہے جو دنیا میں کسی اور کو نہیں آتا اور اس نے مجھے چت کر دیا ہے۔خلیفہ بغداد نے جنید بغدادی کے مخالف اس کمزور اور لاغر نوجوان کو بلایا اور انعام و اکرام سے نوازا۔ جنید بغدادیؒ اس موقع پر رب تعالیٰ سے گویا ہوئے
اور دعا کی کہ ’’اے رب کائنات، مجھے نہیں معلوم کہ میں نے زندگی میںکچھ ایسا کام کیا ہے جو تیری بارگاہ میں مقبول ٹھہرے ، مگر آج میں نے تیرے ایک بندے کی عزت رکھی ہے ، تو رب کائنات ہے ، مجھے اپنے بندوں میں شامل کر کے روحانی مراتب عطا کر۔‘‘اشفاق احمد مرحوم فرماتے ہیں کہ جنید بغدادیؒ کی یہ دعا رب کریم کے ہاں مقبول ٹھہری اور آپ ولی کامل ہوئے۔
اس حوالے سے مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی نے اپنے بیان میں فرمایا کہ جب اس رات حضرت جنید بغدادیؒ رات کو سوئے تو آپؒ کو حضور اکرمﷺ کی زیارت نصیب ہوئی ۔ آقا کریمؒ نے جنید بغدادیؒ سے فرمایا کہ اے جنید تو نے میرے بیٹے اور بیٹیوں کی شرم اور پردہ رکھا ، آج سے ہم تنجھے ولیوں کی سرداری مرحمت فرماتے ہیں اور پھر آپ سے ہی روحانیت کی وہ کونپلیں
پھوٹیں جن سے آج عالم منور ہے۔اس واقعہ کے بعد اشفاق احمد مرحوم فرماتے ہیں کہ آپؒ کی اگر تعلیمات کو دیکھیں تو ہمیں یہ چیز نظر آئے گی کہ آپؒ نے ہمیشہ تلقین فرمائیکہ کسی کو حقیر، ذلیل اور کمترنہیں سمجھنا چاہئے،اور اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ کے درجات کم ہوتے جائیں گے اور اگر آپ جنید بغدادیؒ کی طرح عمل کریں گے تو آپ کے درجات بلند ہوتے جائیں۔
ہم سے غلطی یہ ہوتی ہے بغیر سوچے سمجھے منہ سے بات نکال دیتے ہیں اور پھر غرور اورتکبر کے اظہار کے لئے اس چیز کو اپنا طرہ امتیاز بنا لیتے ہیں جو کہ آپ کی خوبی ہر گز نہیں ہوتی،]مثلاََ آپ کے بچوں کے امتحانات میں اچھے نمبر حاصل کر لینا، آپ کا خوش شکل ہونا ، جو کہ آپ کی خوبی نہیں بلکہ عطائے خدا وندی ہے۔ اس چیز کو آپ لوگ تلوار بنا کر لوگوں
کی گردنیں نہ اتارتے پھرو۔اگر ایسا وقت آجائے کہ اس کرہ ارض پر آپ کی ذات ہی رہ جائے یا آپ اور آپ کے بچے ہی رہ جائیں تو یہ زندگی گزارنی بڑی مشکل ہو جائے گی، لوگوں کو آباد اور خوش رہنے