عمرو بن امیہ الضمریؒ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں حضرت عثمانؓ کے ساتھ طعام شب میں شریک تھا۔ خزیرہ (عرب میں ایک خاص قسم کا سالن ہوتا تھا جیسے خزیرہ کہتے تھے۔ اس کو بکری کی کلیجی، گردہ، دل اور گھی و دودھ سے تیار کیا جاتا تھا) سامنے آیا تو حضرت عثمانؓ نے پوچھا کیسا ہے؟
میں نے کہا بہت لذیذ اور نفیس ہے۔ میں نے آج تک ایسا خزیرہ نہیں کھایا۔ اس پر حضرت عثمانؓ بولے اللہ تعالیٰ عمر بن الخطابؓ پر رحم فرمائے، تم نے خزیرہ کبھی ان کے ساتھ بھی کھایا ہے؟ میں نے جواب دیا جی ہاں! میں نے کھایا ہے لیکن وہ خزیرہ ایسا تھا کہ نہ تو اس میں گوشت تھا اور نہ گھی نہ دودھ۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا تم سچ کہتے ہو۔ عمرؓ نے جہد و مشقت کی ایسی ز ندگی بسر کی ہے کہ اس کی پیروی کرنا مشکل ہے۔ وہ لذیذ نفیس غذاؤں سے اجتناب کرتے تھے۔ میں اللہ کی قسم مسلمانوں کے مال سے ایک پیسہ نہیں لیتا جو کچھ کھاتا ہوں اپنی کمائی سے کھاتا ہوں۔تم کو معلوم ہے کہ میں قریش میں سب سے زیادہ مال دار تھا اور میرا تجارتی کاروبار سب سے بڑا تھا۔ میں ہمیشہ نرم غذاؤں کا عادی رہا ہوں اور اب تو میری عمر بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اس لیے مجھے نرم غذاؤں کی اور بھی ضرورت ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی شخص کو اس معاملہ میں مجھ پر نکتہ چینی کا حق ہے۔