حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلوہ افروز ہوئے اور اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تم ان دو آیتوں کے متعلق کیا کہتے ہو ’’اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا (فصلت 30:) اور ’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَلَمْ یَلْبِسُوْا اِیْمَانَھُم بِظُلْمٍ‘‘ (الانعام:82)ان آیات کا تمہاری نظر میں کیا مفہوم ہے؟ اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر استقامت دکھائی، اس سے مراد ہے کہ
پھر کوئی اور دین اختیار نہیں کیا اور اپنے ایمان کو ظلم سے نہیں ملایا یعنی کسی گناہ کے ساتھ نہیں ملایا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم نے ان آیات کو بے محل جگہ پر محمول کیا۔ پھر فرمایا کہ ’’قالو ربنا اللہ ثم استقامو‘‘ کا مطلب ہے کہ پھر انہوں نے کسی دوسرے معبود کی طرف الفتات نہیں کیا اور دوسری آیت میں ’’بظلم‘ سے مراد شرک ہے کہ پھر انہوں نے اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ ملتبس نہیں کیا۔