منگل‬‮ ، 23 ستمبر‬‮ 2025 

ایڈی ریکن بیکر،وہ کاروں کی دوڑ کا مانا ہوا ڈرائیور تھا مگر اس کے پاس ڈرائیوری کا لائسنس نہ تھا

datetime 13  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جسے بظاہر موت نہیں پچھاڑ سکتی۔ جو پچیس برس تک موت اور تباہی کا مذاق اڑاتا رہا۔ اس نے موٹر کاروں کی دو سو سے زیادہ دوڑوں میں تیز رفتاری کے مظاہرے کیے۔ جنہیں دیکھ کر تماشائیوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ 1918ء کے خونیں دور میں اس نے کوئی چھبیس جرمن ہوئی جہازوں کو گولی کا نشانہ بنا کر زمین پر گرا دیا۔

خود اس پر گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی لیکن اسے خراش تک نہ آئی۔جی ہاں یہ ایڈی ریکن بیکر کی کہانی ہے۔ جس نے پہلی جنگ عظیم میں مشہور امریکی ہوائی سکارڈن ’’ہیٹ ان دی رنگ‘‘ کے کمانڈر کی حیثیت سے بہادری کے ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیے کہ جنہیں دنیا کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد میں جس شخص کے منیجر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ میں نے زندگی بھر اس جیسا دل کش آدمی نہیں دیکھا۔ اس شخص کا نام سر راس سمتھ تھا۔ مشہور آسٹریلوی ہوا باز، وہ پہلاشخص جس نے یروشلم کے مقدس شہر پر پرواز کی اور وہ پہلا ہوا باز جس نے پوری دنیا کا چکر لگایا۔ میرے خیال میں دونوں ہوا بازوں کی عادتیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی تھیں۔ دونوں خوش گفتار، نرم طبع اوردھیمی طبیعت کے مالک تھے۔ وہ دھاڑتی مشینوں کے پیچھے کھڑے ہونے والے اور آسمان سے آگ برسانے والے دوسرے سپاہیوں کی طرح بددماغ اور سخت مزاج نہ تھے۔بارہ برس کی عمر تک ایڈی ریکن بیکر ایک آوارہ لڑکا تھا۔ وہ ذرا سی بات پر غصے میں بھڑک اٹھتا تھا اور اڑوس پڑوس کے آوارہ بچوں کا سرغنہ تھا۔ وہ سب کے سب مل کر گلی کوچوں کی بیتیاں توڑتے اور لوگوں کے کھیتوں سے گنے اکھاڑتے، پھر ایک المیہ ہوا، اس کا باپ انتقال کر گیا اور رات ہی رات میں ایڈی ریکن بیکر ایک آوارہ کھلنڈرے لڑکے سے ایک ذمہ دار شخص بن گیا۔

جس وقت اس کے باپ کی تجہیز و تکفین ہو رہی تھی۔ ایڈی ریکن بیکر نے تہیہ کیا کہ وہ اپنے پورے کنبہ کا بوجھ اٹھائے گا۔ دوسرے روز اس نے پڑھائی چھوڑ دی اور ایک گلاس فیکٹری میں ملازمت کرلی۔ اسے فی گھنٹہ دو پنس مزدوری ملتی تھی اور وہ دن میں بارہ گھنٹے کام کرتاتھا۔ اس کے گھرسے فیکٹری کا فاصلہ سات میٹر تھا۔ وہ روزانہ شام کو پانچ پنس بچانے کے لیے فیکٹری سے گھر اور گھر سے فیکٹری پیدل آتا جاتا تھا۔

اس نے قسم کھا رکھی تھی کہ وہ آگے بڑھتا جائے گا۔ دنیا کی کوئی شے اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی تھی۔ گلاس فیکٹری کا کام غیر دلچسپ اور اکتا دینے والاتھا۔ ایڈی کو یہ کام بالکل پسند نہیں تھا۔ اس کی دلی خواہش تھی کہ وہ فن کار بنے، تخلیق کرے اور تصورات کی دنیا میں گم ہو کر ایسے نقش و نگار تخلیق کرے کہ جسے دیکھ کر لوگ دنگ رہ جائیں۔ چنانچہ اس نے ایک شبینہ مدرسے میں داخل ہو کر ڈرائنگ سیکھنا شروع کی اور دن کے وقت ایک دکاندار کے پاس ملازمت کی۔

یہ دکان دار قبروں کے کتبوں کا کاروبار کرتاتھا۔ ایڈی کے ذمے کتبے تراشنے کا کام تھا۔ پھر کسی نے اسے بتایاکہ کتبے تراشنا خطرناک کام ہے۔ اس طرح سنگ مرمر کے ذرات پھیپھڑوں میں داخل ہو کر انسان کو بیمار کر دیتے ہیں۔ ایڈی ریکن بیکر کہتا ہے کہ میں مرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے میں نے کسی اور دھندے کی تلاش شروع کردی۔پھر ایک وقت ایسا آیا کہ چودہ سال کی عمر میں ایک خوش گوار صبح کو وہ ایک فٹ پاتھ کے کنارے کھڑا ٹکٹکی باندھے ایک موٹر کار کی طرف دیکھ رہا تھا۔

اس سے پہلے اس نے کبھی موٹر کار نہیں دیکھی تھی، کون جانتا تھاکہ کولمبس اوہیو کے گلی کوچوں میں دوڑتی اوردندناتی ہوئی یہ کار اس کی قسمت کا رخ پھیر دے گی۔اپنی پندرہویں سالگرہ سے پہلے اسے ایک موٹر گیراج میں کام مل چکا تھا۔ اس عمارت میں کسی زمانے میں اصطبل ہوا کرتاتھا اور اب یہاں ایڈی دوسرے کاموں کے علاوہ کار چلانا بھی سیکھ رہا تھا۔ جب وہ پورا ڈرائیور بن گیا تو اس نے گیراج کے عقب میں اپنی ایک علیحدہ ورک شاپ کھول لی اور خود ساختہ پرزوں سے موٹر کار بنانی شروع کردی۔

اسی دوران میں کولمبس میں بھی موٹریں بنانے والی ایک فیکٹری کھل گئی، ایڈی ہر اتوار کو اس فیکٹری میں جاتا اور اس مالکوں سے ملازمت کے لیے التجا کرتا، جب مسلسل اٹھارہ بار اس کی استدعا مسترد کر دی گئی تو اس نے فیکٹری کے مالک کو یہ کہہ کر تذبذب میں ڈال دیا کہ ’’آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں۔‘‘ لیکن آج سے میں آپ کے ملازموں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہوں۔ میں کل صبح سے کام شروع کر دوں گا۔ آپ ذرا دیکھئے نا کہ یہ فرش کس قدر میلا ہے۔

میں فرش صاف کروں گا۔ آپ کے اوزار تیز کروں گا۔ اور دوسرے تمام کاموں میں آپ کا ہاتھ بٹاؤں گا، سمجھے آپ؟‘‘ تنخواہ؟ اس نے تنخواہ کا کوئی ذکر نہ کیا۔ وہ تو اس تلاش میں تھا کہ کسی بہانے اسے کام کرنے کا موقع مل جائے اوربالآخر اسے کام کرنے کا یہ موقع میسر آ گیا۔ خط و کتابت کے ذریعے سے انجینئرنگ کی تعلیم دینے والے ایک ادارے میں اپنا نام درج کرانے کے بعد وہ ان سنہری موقعوں سے فائدہ اٹھانے کی تیاریاں کرنے لگا، جو اب اس کی راہ دیکھ رہے تھے۔

اس کے بعد وہ تیزی سے ترقی کرتاگیا۔ ورک مین سے فورمین بنا پھر اسسٹنٹ انجینئر، سیلز مین، برانچ منیجر۔ پھر اس پر ’’تیز رفتاری اور کارہائے نمایاں کرنے کا جنون سوار ہوگیا۔‘‘ جو موٹر کاروں کی دوڑوں میں لوگ تالیاں پیٹ کر اور پرجوش نعرے لگا کر ڈرائیورں کو خراج تحسین پیش کرتے تو وہ ان کی خوش نصیبی پر پھولا نہ سماتا تھا۔ اب اسے یہ احساس بھی ہو چلاتھا کہ ریسنگ ڈرائیور بننے کے لیے اسے اپنے مزاج میں تبدیلی کرنا ہوگی۔

چنانچہ اس نے غصے کو قابو میں رکھنے کی کوشش شروع کی، اس نے اپنے اندر خود اعتماد پیدا کی، اس نے اپنے آپ کو مسکرانے پر مجبور کیا، حتیٰ کہ لوگ اس کی مخصوص مسکراہٹ سے پیار کرنے لگے۔ کاروں میں حصہ لینے والوں کے اعصاب مضبوط ہونے چاہئیں۔ ایڈی اس حقیقت سے پوری طرح واقف تھا۔ اس لیے اس نے تمباکو نوشی اور شراب نوشی بالکل بند کردی اور ہر رات کو پورے دس بجے سو جانا اپنا معمول بنا لیا۔

پچیس برس کی عمر میں ایڈی ریکن بیکر اپنے آپ کو وقت کا سب سے بڑا ریسنگ ڈرائیور کی حیثیت سے تسلیم کرا چکا تھا۔اور اب اس کے بارے میں ایک مضحکہ خیز بات بھی سن لیجئے کہ گشتہ تیس برس میں اس نے سینکڑوں اور ہزاروں میل موٹر کاریں دوڑائی ہیں۔ لیکن اس کے پاس کبھی موٹر کار چلانے کالائسنس نہیں ہوا۔ اب بھی وہ بغیر لائسنس کے موٹر کار ہی چلاتا ہے۔وہ اچھے اور برے شگونوں میں اعتقاد نہیں رکھتا۔

اس کے دوست اسے خرگوش کے پنجے، گھوڑے کے نعل اور خوش بختی کے ایسا نشان دیا کرتے تھے۔ جن پر ہاتھی کی تصویر کندہ ہوتی تھی۔ وہ یہ سب چیزیں لے لیاکرتاتھا۔ پھر ایک روز جب وہ گاڑی میں امریکہ کے ایک سرے سے دوسرے تک جا رہا تھا تواس نے خوش بختی کے ان تمام نشانوں کو اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ جب امریکہ میں پہلی جنگ عظیم میں شامل ہوا تو اس وقت ایڈی ریکن بیکر موٹر کاروں کی دوڑ میں تماشائیوں کا محبوب تھا۔

اسی زمانے میں وہ جنرل پرشنگ کے ڈرائیور کی حیثیت سے بحری جہاز میں فرانس پہنچا لیکن صرف ایک جنرل کی کار چلانے کا کام اس کی دشوار پسند طبیعت کو راس نہ آیا۔ وہ ہنگامے کی تلاش میں تھا اور بالآخر اس کی یہ خواہش پوری ہو گئی۔ اسے خاکی وردی اور مشین گن مل گئی۔ پندرہ ماہ کے عرصے میں اس کا نام بہادری اور جرأت کے شاندار مظاہروں کی بدولت میدان جنگ کے مشاہیر کی فہرست میں درج ہوگیا اورتین حکومتوں کی طرف سے اس کی خدمات کے اعتراف کے طور پر اسے خاص میڈل عطا کیے گئے۔

تین سو ستر صفحے پر مشتمل رونگٹے کھڑے کر دینے والی ایک کتاب میں اس نے اپنے شان دار کارناموں کی داستان رقم کی ہے۔ اگر آپ ایک ایسی کتاب پڑھنے کے خواہش مند ہوں، جو جرأت اور بہادری کے حیرت انگیز واقعات سے پر ہوتو اپنے شہر کی لائبریری میں جا کر ایڈی ریکن بیکر کی تصنیف ’’فاٹنگ دی فلائنگ سرکس‘‘ حاصل کیجئے۔ یہ ہوا بازی کی تاریخ کا ایک درخشندہ باب ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…