ڈیل کارنیگی کہتے ہیں کہ مارٹن جانسن نے افریقہ کے جنگلوں میں ہزاروں شیروں کی تصویریں اتاریں، لیکن وہ ان میں سے صرف دو کو ہلاک کر سکا۔ مارٹن جانسن نے مجھے بتایا کہ افریقہ کے جنگلوں میں اس کا آخری قیام بیس ماہ کا تھا۔ اس عرصے میں اس نے جتنے شیر دیکھے، اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ اس کے باوجود اس نے ایک بار بھی بندوق نہیں چلائی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنے پاس بندوق رکھتا ہی نہیں تھا۔
افریقہ سے واپسی پر ہر سیاح جنگلی جانوروں سے مقابلے کی خونیں داستانیں سناتا لیکن جانسن کا اعتقاد یہ تھا کہ وہ یا کوئی بھی ایسا شخص جو افریقہ کے جنگلی جانوروں کے بارے میں مکمل واقفیت رکھتا ہو، کسی ہتھیار کے بغیر صرف بید کی ایک چھڑی کے سہارے جنگل کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ سکتا ہے۔جانسن نے مجھے یہ بھی بتایا کہ جب وہ آخری بار افریقہ گیا تو اپنے ساتھ ایک ریڈیو سیٹ بھی لے گیا تاکہ وہاں بیٹھ کر امریکہ سے نشر ہونے والے پروگرام بھی سن سکے۔ اس نے بتایا کہ پہلے ایک دو ماہ تک وہ متواتر ریڈیو پروگرام سنتا رہا۔ لیکن بعد میں خشک پروگرام اور کاروباری اعلانات سن سن کر وہ اتنا اکتا گیا کہ اس نے کئی ماہ تک ریڈیو کو ہاتھ نہ لگایا۔مارٹن جانسن نے صرف چودہ سال کی عمر میں دنیا کی سیاحت شروع کر دی تھی۔ اس کا باپ امریکہ کے مشہور شہر کیناس میں جوہری کا کام کرتاتھا۔ بچپن میں مارٹن جانسن اپنے باپ کی دکان پر دور دراز ملکوں سے آنے والی بند پیٹیاں کھولا کرتا تھا۔ پیٹیوں پر پیرس، جنیوا، بارسی لونا او بڈاپسٹ جیسے عجیب و غریب شہروں اور ملکوں کے نام دیکھ دیکھ کر اس کے دل میں یہ خواہش مچلنے لگی کہ وہ دنیا کا سفر کرے۔ ’’آہستہ آہستہ اس خواہش نے مصمم ارادے کی شکل اختیار کرلی اور پھر ایک روز مارٹن جانسن اپنے گھر سے بھاگ نکلا اور امریکہ سے نکل کر ایک مال بردار کشتی میں سوار ہو کر یورپ روانہ ہوگیا۔
اس ’’پرانی دنیا‘‘ میں پہنچ کر اسے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کئی پاپڑ بیلنا پڑے۔ اکثراوقات جب اسے کوئی کام نہ ملتا تو خاصی پریشانی کا سامنا کرناپڑا۔ برسلز میں اسے کئی روز بھوکا رہنا پڑا۔ برسٹ میں وہ گھر سے دور سمندر کے کنارے انتہائی پریشانی کے عالم میں خلاؤں میں اپنی منزل تلاش کرتا رہا۔ لندن میں اس نے کئی راتیں دکان داروں کے بند کھوکھوں کے نیچے گزاریں پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس نے مایوس ہو کر واپس جانے کا ارادہ کر لیا
اور اپنے وطن جانے کے لیے ایک مجرم کی طرح وہ کئی روز تک ایک بحری جہاز میں چھپا رہا۔پھر ایک واقعہ ایسا ہوا کہ جس نے اس کی زندگی کا رخ موڑ دیا۔ یہی واقعہ سیاحت کے شوق کی تکمیل کا باعث بنا۔ ہوا یہ کہ جس بحری جہاز میں مارٹن جانسن نے اپنے وطن واپس جانے کے لیے پناہ لی تھی۔ وہاں اس کی ملاقات ایک انجینئر سے ہوئی۔ اس انجینئر نے کسی رسالے میں جیک لندن کا ایم مضمون دکھایا،
جیک لندن نے اپنے اس مضمون میں بتایا تھا کہ وہ کس طرح ایک تیس فٹ کے چھوٹے جہاز میں جس کا نام سنارک تھا، دنیا کا سفر کرنا چاہتا ہے۔گھر پہنچتے ہی مارٹن جانسن نے جیک لندن کو ایک خط لکھا۔ آٹھ صفحے کے اس خط میں اس نے اپنی آرزوؤں اور مسرتوں کی پوری کہانی لکھ دی۔ اس نے انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ جیک لندن سے التجا کی کہ وہ دنیا کے سفر میں اسے بھی ساتھ لے جائے۔
اس نے یہ بھی لکھا کہ میں خود بھی کئی شہروں کی سیاحت کر چکا ہوں۔ میں جب شکاگو سے اس سفر پر روانہ ہوا تو میری جیب میں تیس ڈالر تھے اور جب میں واپس اپنے گھر پہنچا تو میری جیب میں ایک ڈالر باقی تھا۔دو ہفتے گزر گئے، لیکن خط کا کوئی جواب نہ آیا۔ پھر ایک دن اسے جیک لندن کی طرف سے ایک تار ملا۔ یہ تارصرف تین الفاظ پر مشتمل تھا۔ تین الفاظ جنہوں نے مارٹن جانسن کی زندگی کا رخ بدل دیا۔
لکھا تھا ’’کھانا پکا لو گے۔‘‘کیا وہ کھانا پکانا جانتا تھا؟ بالکل نہیں، اس کے لیے تو چاول پکانا بھی مشکل تھے۔ اس نے جیک لندن کی طرح اختصار سے تین ہی لفظوں کا جواب تار بھیجا ’’مجھے آزما لیجئے۔‘‘ اس کے بعد وہ گھر سے نکلا اور ایک ہوٹل کے باورچی خانے میں ملازم ہو گیا۔ اور آخر کار جب جیک لندن کا چھوٹا جہاز سنارک خلیج سان فرانسسکو کی لہروں کو چیرتا ہوا بحرالکاہل کی طرف روانہ ہوا تو مارٹن جانسن ہیڈ باورچی کی حیثیت سے اس میں سوار تھا۔
ہوٹل کی ملازمت کے دوران اس نے اتنی مہارت پیدا کر لی تھی کہ وہ اب روٹی، آملیٹ، شوربہ حتیٰ کہ پڈنگ تک آسانی سے پکا سکتاتھا۔ سودا سلف خریدنے کا کام بھی اس کے سپرد تھا۔ اس نے احتیاطً نمک مرچ کی اتنی مقدار خرید لی تھی کہ جو ایک عام سفر کے لیے دو سو سال تک کافی تھی۔اس سفر میں اس نے جہاز رانی بھی سیکھی، بہت جلد اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ ایک بہترین جہاز ران ہے۔ چنانچہ ایک روز اس نے اپنی ذہانت کا مظاہرہ کرنے کے لیے نقشے میں یہ دکھانے کی کوشش کی کہ ان کا جہاز اس وقت کس مقام سے گزر رہا ہے۔
اس وقت سنارک بحرالکاہل میں سے گزرتا ہوا ہونولولو کی طرف جا رہا تھا لیکن مارٹن جانسن کا محدود علم یہ بتاتا تھا کہ اس وقت جہاز بحراوقیانوس کے وسط میں ہے۔ لیکن یہ جان کر کہ اس کا اندازہ اور حساب صحیح نہیں۔ اس نے حوصلہ نہ ہارا۔ اس کا جوش و خروش روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔ اب دنیا کی کوئی چیز اسے اپنے ارادوں سے باز نہ رکھ سکتی تھی۔ ایک جہاز کا ملاح جہاز کو چھوڑ کر دو ہفتے کے لیے غائب ہو گیا اور مارٹن جانسن کو کوئی دو ہفتے کڑی دھوپ کا مقابلہ کرنا پڑا۔
لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔اس واقعہ کو تیس سال ہو چکے ہیں۔ مسرت و انبساط کے تیس سال جس میں مارٹن جانسن سیاحت کا شوق پورا کر چکا ہے۔ اس دوران میں اس نے سات سمندروں کی سیر کی ہے۔ پوری دنیا کا چکر لگایا ہے اور کورال کے جزیروں سے افریقہ کے تاریک جنگلوں تک کا کونہ کونہ چھان مارا ہے۔ آدم خور جانوروں کی جوتصویریں آج امریکہ میں دکھائی جاتی ہیں۔ وہ سب سے پہلے مارٹن جانسن نے ہی اتاری تھیں۔
اب تک وہ شیروں، چیتوں، ریچھوں، زرافوں اور افریقہ کے دوسرے جنگلی جانوروں کی ہزاروں تصویریں لے چکا ہے۔ اس کے تصویروں کے مجموعے میں عجیب و غریب جانوروں اورانسانوں کی تصویریں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ تصویروں کا مجموعہ نہیں، حضرت نوح کی کشتی ہے۔ جس میں طرح طرح کی مخلوق سوار ہے۔ اس نے فنا ہو جانے والے جنگلی جانوروں کو اپنی شان دار عکاسی سے اس خوب صورتی کے ساتھ سلولائیڈ پر منتقل کیا ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں اس دور میں بھی ان جنگلی جانوروں کے نظارے سے لطف اندوز ہو سکتی ہیں۔
جب غالباً افریقہ کے بہت سے جانوروں کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا۔ مارٹن جانسن کا کہنا ہے کہ ایسا شیر جسے انسان نے کبھی نہ ستایا ہو، کسی حالت میں بھی انسان پر وار نہیں کرتا۔ جنگل میں ایک جگہ کوئی دس پندرہ شیر لیٹے ہوئے تھے۔ مارٹن جانسن نے اپنی کار ان کے درمیان جا کھڑی کی۔ شیروں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور پالتو بلیوں کی طرح زمین پر کروٹ لیتے رہے۔
ان میں سے ایک شیر اپنی جگہ سے اٹھا اور کار کے اگلے ٹائر کو چومنے لگا اس طرح ایک بار مارٹن جانسن اپنی کار ایک شیرنی کے اس قدر قریب لے گیا کہ وہ اگر چاہتی تو بڑی آسانی سے اس کے کوٹ کو چھو سکتی تھی لیکن اس نے ایسا کرنے کی تکلیف گوارہ نہ کی۔ میں نے اس سے پوچھا ’’کیا تم یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہو کہ شیر بہت اچھی فطرت کا مالک ہے۔‘‘
اس نے جواب دیا نہیں بھائی نہیں! میرا یہ قطعی مطلب نہیں۔ میرے نزدیک خود کسی کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ انسان شیر کو بے ضرر سمجھنے لگے۔ کیونکہ تم کبھی یہ اندازہ نہیں کر سکتے کہ کس وقت اسے تمہاری نیت پر شبہ ہو جائے اور وہ تم پر وار کر دے اور شیر جب غصے میں آیا ہوا ہو تو دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔ اس کا وار بالکل یونہی ہوتا ہے کہ جیسے کوئی سو پونڈ کا ڈائنامائیٹ پھینک رہا ہو۔
شیرکی ایک چھلانگ تقریباً چالیس فٹ کی ہوتی ہے اور غصے کی حالت میں وہ انتہائی تیز رفتار گھوڑے کو بھی پیچھے چھوڑ سکتاہے۔میں نے اس سے سوال کیا کہ کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ وہ کسی مصیبت کی لپیٹ میں آ کرمرتے مرتے بچا ہو۔ ’’اس نے جواب دیا ایسے کئی واقعات ہیں۔‘‘ لیکن اب میرے لیے وہ کھیل سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔اس قسم کا ایک حادثہ اس جزائر غرب الہند میں پیش آیا۔ اگر قسمت اس کی مدد نہ کرتی تو اس روز آدمی خوروں کی دیگ میں اس کا قورمہ بن جاتا۔
اس روز وہ آدم خور کی پہلی تصویر اتار رہا تھا۔ اس سے پہلے کسی نے ایسی تصویر نہیں اتاری تھی۔ سفید فام تاجر ان دنوں آدم خوروں کے جزیروں پر یلغار کر رہے تھے۔ ان کاکام یہ تھا۔ وہ حبشی لوگوں کو اغوا کرتے اور غلاموں کی حیثیت سے فروخت کر دیتے۔ آدم خور ایک تو ان کی ان حرکات پر برافروختہ تھے اور ہر سفید فام کو اپنادشمن سمجھتے تھے۔ دوسرے انہیں ہر دم شکار کی تلاش رہتی تھی۔ اب تک وہ کئی سفید فام لوگوں کو ہلاک کرکے ان کا سامان لوٹ چکے تھے۔
جب مارٹن جانسن ان کے ہتھے چڑھاتو انہوں نے فیصلہ کیا کہ کینساس کے اس نوجوان کا قورمہ بہت لذیذ رہے گا۔ چنانچہ مارٹن جانسن ان کے سردار سے میٹھی میٹھی باتیں کرتا ہوا اسے تحائف پیش کر رہا تھا تو بہت سے آدم خوروں نے اسے چاروں طرف سے اپنے گھیرے میں لے لیا۔ یہاں مارٹن جانسن کی مدد کرنے والا کوئی بھی نہ تھا۔ جب اس نے اپنے گرد و پیش دیکھا تو اسے ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔ اس کے پاس پستول تو تھا لیکن آدم خور سینکڑوں کی تعداد میں تھے اور ایک پستول ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا تھا۔
اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ اس کے اوسان خطا ہو رہے تھے لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ کسی قسم کی گھبراہٹ کا مظاہرہ نہ کرے اور سردار سے باتیں جاری رکھے۔ آدم خوروں کی تعداد میں ہر لمحہ اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور وہ اپنے نیزے ہوا میں اچھال اچھال کر خوشی کے گیت گا رہے تھے۔ اس موقع پر مارٹن جانسن کو پہلی بار خیال آیا کہ اس نے اپنا گھر بار چھوڑ کر اچھا نہیں کیا اگر وہ اپنے باپ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے کاروبار سنبھال لیتاتو زیادہ مناسب تھا۔
اورپھر جب آدم خور اس کی طرف لپکنے ہی والے تھے تو ایک معجزہ رونما ہوا۔ یکایک نیچے خلیج سے ایک برطانوی گشتی جہازکی وسل سنائی دی۔ آدم خور پریشان ہو گئے وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس وسل کا کیا مطلب ہے؟ یہ وسل سن کر مارٹن جانسن بھی حیران رہ گیا۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس کے بعد اس نے آدم خوروں کے سردار کو فرشی سلام کرتے ہوئے کہا ’’دیکھا آپ نے میرا جہاز میری تلاش میں یہاں آن پہنچا ہے۔‘‘ آپ لوگوں سے مل کر بہت مسرت ہوئی، خدا حافظ! اور اس سے پہلے کہ کوئی آدم خور اس کی طرف بڑھتا وہ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ خلیج کی طرف بھاگ گیا۔