جب ’’بش ماسٹر‘‘ ایک قسم کا سانپ نیو یارک پہنچا تو اسے دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ چڑیا گھر کے سامنے جمع تھے۔ وہ ابھی چھ ماہ کا بچہ تھا لیکن وہ ایک آتش فشاں پہاڑ سے کم دکھائی نہیں دیتا تھا۔نیو یارک کے چڑیا گھر کا انچارج ریمنڈ ڈٹمارس گزشتہ پچیس برس سے ایک بش ماسٹر کی تلاش میں تھا۔ آخر بڑی جدوجہد کے بعد اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔
جب میں نے اس سے پوچھا کہ وہ بش ماسٹر کو کس طرح کھلائے پلائے گا تو اس نے جواب دیا۔ ’’یہ تو بڑی آسان بات ہے‘‘ اس کا منہ کھول کر اس میں گوشت ڈال دیں اور پھر ایک چھڑی سے وہ گوشت اس کے حلق سے نیچے کر دیں۔‘‘ریمنڈ ڈٹمارس سانپوں کے متعلق وسیع علم رکھتا تھا۔ اسے ہزاروں سانپوں سے واسطہ رہا لیکن آج تک کسی سانپ نے اسے کاٹا نہیں۔ اس نے سانپوں کے زہر کی ایک بے مثال دوا بھی بنارکھی تھی۔ یہ دوا بنانے میں اس نے کئی سال صرف کیے اور اب تک اس سے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں بچ گئی ہیں۔بچپن میں ریمنڈ ڈٹمارس کے والد نے اسے ایک فوجی سکول میں داخل کرایاتھا۔ تاکہ وہ وہاں ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی میں داخلہ لینے کی تیاری کر سکے۔ اس کا والد اسے ایک سپاہی کی وردی میں دیکھنا چاہتاتھا لیکن ریمنڈ ڈٹمارس کے خون میں تو جنگل کی لگن رچی بسی تھی۔ لڑکپن کے جوش و خروش میں اس نے سانپ جمع کرنے کافیصلہ کیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس کے پاس مختلف نسلوں کے بہت سے سانپ جمع ہو گئے۔ وہ چھٹی کا دن دریائے ہڈسن کے کنارے سانپوں کی تلاش میں بسر کرتا۔ اس نے سانپ خریدے، ان کی تجارت کی اور دوسروں سے ملتجی لہجے میں مانگے بھی۔ اس نے ویسٹ انڈیز کے سائنس دانوں کو خط لکھے اور ان سے امریکی سانپوں کا تبادلہ کیا۔
آخر اس کے پاس سانپوں کا اتنا بڑا ذخیرہ جمع ہو گیا کہ اس کی والدہ نے ڈر کے مارے اسے مکان کابالائی کمرہ دے دیا۔ جب اخباروں کو اس کے متعلق یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے اس کے متعلق بڑی دل چسپ کہانیاں لکھیں۔ سانپوں کے جوگی اور سرکس کے آدمی اس سے ملنے آئے۔ سارے محلے میں اس کا مکان ایک ہنگامے کا مرکز بن گیا۔سانپوں کو خوراک مہیا کرنے کے لیے اس نے سٹینو گرافی سیکھنا شروع کر دی۔
اس کا والد ڈکنز کے ناول بلند آواز میں پڑھتا اور وہ شارٹ ہینڈ کی مشق کرتا رہتا۔ اب اس کے پاس شارٹ ہینڈ میں لکھے ہوئے ڈکنز کے ناولوں کا پورا ایک سیٹ موجود ہے جسے وہ بے حد عزیز رکھتا ہے۔بعد میں جب وہ ایک اخبار میں بطور رپورٹر کام کرنے لگاتو وہ چائنہ ٹاؤن کے ہوٹلوں کے تہہ خانوں میں چوہے پکڑنے کے لیے پنجرے وغیرہ لگا چھوڑتا اور اس طرح اپنے عجیب ذخیرے کے لیے خوراک کا بندوبست کرتا۔
جب نیو یارک شہر میں ایک بڑا چڑیاگھر بننے کا فیصلہ ہوا تو سانپوں کے شعبے کے انچارج کے طور پر ریمنڈ ڈٹمارس کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جب وہ اپنا خطرناک ذخیرہ گھر سے اٹھا کر چڑیا گھر میں لے گیا تو اس کی والدہ نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔یہ 1899 کی بات ہے۔ اس وقت سے اب تک نیو یارک کے چڑیا گھر میں دنیا کے عجیب و غریب جانور اور پرندے جمع ہو چکے ہیں۔ ریمنڈ ڈٹمارس کو سانپوں کے متعلق دنیا میں ایک اتھارٹی تصور کیاجاتا ہے۔
اس سے زیادہ کوئی شخص سانپوں کے بارے میں معلومات نہیں رکھتا۔ آپ کے خیال میں بندر کس قدر مسخرے ہوتے ہوں گے؟ یہ حقیقت ابھی آپ پر منکشف ہو جاتی ہے۔ چند برس پہلے کی بات ہے کہ ڈاکٹر ریمنڈ ڈٹمارس نے اپنے گھر میں چند بندر رکھے ہوئے تھے۔ ایک دن جب گھر کے افراد کہیں باہرگئے ہوئے تھے تو بندروں نے پنجرہ توڑ کر اعلیٰ پیمانے پر جشن منایا۔ ایک روشن دان کے ذریعے وہ کھانے کے کمرے میں داخل ہوئے اور چھت سے آویزاں برقی شمع دان کے ساتھ جھولا جھولنے لگے۔
وہ بڑی دیر تک من مانی کارروائیاں کرتے رہے۔ بندروں کے بوجھ سے برقی شمع دان کی یہ حالت ہو گئی کہ وہ چھت سے ٹوٹ کر زمین پر گرنے والا ہوگیا۔ بجلی کے کئی تاربھی ٹوٹ گئے مگر یہ حیرت کی بات ہے کہ مکان کو آگ نہ لگی۔ وہ پیانوں کے اوپر چڑھ گئے اور جوتوں کا ایک جوڑا لے کر پیانو کے سروں پر مارنے لگے۔ انہوں نے چینی کے برتن توڑ دئیے۔
سارے غالیچے پر سیاہی بکھیر دی اور فیس کریم شیشے پر مل دی پھر انہوں نے سلائی مشین کے دراز سے دھاگے کا ایک گولہ نکالا اور اسے سارے مکان کے گرد لپیٹ دیا۔ انہوں نے میزوں کے دراز اوپر نیچے کر دیے اور کچن میں سے فرائی پان اٹھا کر اسے سیڑھیوں میں رکھ آئے۔ جب اہل خانہ واپس آئے تو گھر کی حالت دیکھ کر انہیں یوں محسوس ہوا کہ جیسے ان کے بعد زوروں کی آندھی چلی ہو۔اب آپ کو اندازہ ہوگا کہ بندر کس قدر مسخرے ہوتے ہیں۔