حضرت سلطان محمود غزنویؒ ولی کامل اور بادشاہِ وقت ہے، ان کا نہایت محبوب وزیر ایاز ایک مرتبہ دربار میں حاضر تھا، اچانک اسے وہم گزرا کہ گریبان کا بٹن جلدی کی وجہ سے کھلارہ گیا ہے، چونکہ یہ بات دربارِ شاہی کے آداب کے خلاف تھی، لہٰذا فوراً اس کا ہاتھ بٹن درست کرنے کے لیے اٹھ گیا، عین اسی وقت سلطان محمود غزنویؒ کی نظر ایاز پر پڑی تو فرمایا، ایاز! دربارِ شاہی میں یہ حرکت؟
ایاز ساکت و صامت، با ادب نفس گم کردہ کھڑا رہ گیا۔ یہ تو ایک مخلوق بادشاہ کے دربار کے آداب کا حال ہے، پھر اس احکم الحاکمین کے دربارِ عالی کے آداب کا تقاضا ہی یہ تھا کہ نبی اکرمؐ اس ادب سے حاضر ہوتے جس کی تصویر کشی رب کائنات نے مازاغ البصروما طغیٰ کے الفاظ سے کی، باقی اعضاء کی حرکت کا تو مذکور ہی کیا، دیدارِ محبوب میں آنکھ کی ٹکٹکی میں بھی فرق نہ آیا، قلب کی توجہ بھی وہیں مرکوز رہی، نہ بہکے نہ بھٹکے۔ سبحان اللہ۔
کاشانۂ نبوت میں امام مالکؒ کا ادب
(1)۔ ابن حمید روایت ہے کہ خلیفہ ابو جعفر منصور عباسی نے امام مالکؒ سے مسجد نبوی میں کسی بات پرمباحثہ کیا، اس وقت خلیفہ کے ہمراہ پانچ سو شمشیر بند بھی موجود تھے، دورانِ گفتگو جب خلیفہ کی آواز قدرے بلند ہوئی تو امام مالکؒ نے فرمایا، اے امیر المومنین! اس مسجد میں اپنی آواز بلند مت کرو (نبی کریمؐ کا احترام وفات کے بعد بھی ایساہی ے جیسا کہ حیاتِ مبارکہ میں تھا) یہ سنتے ہی ابو جعفر کی آواز پست ہو گئی۔ (2)۔ حضرت امام مالکؒ نے اپنی زندگی مدینہ منورہ میں بسر کی، جب قضائے حاجت کی ضرورت پیش آتی تو آپ شہر سے باہر حدود حرم تک جاتے اور اس طرح بیٹھ کر فراغت حاصل کرتے کہ جسم تو حدود حرم میں رہتا تاہم فضلہ حدود سے باہر گرتا،
کسی کے پوچھنے پر فرمایا کہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں مدینہ منورہ سے باہر میری موت واقع نہ ہو جائے، ایک طرف تو دریار حبیب سے اتنا لگاؤ اور دوسری طرف ادب کی یہ انتہا کہ اپنے جسم کی نجاست مدینہ منورہ کی مٹی میں شامل کرنا گوارا نہیں، محبت و ادب کا یہ امتزاج بہت کم دیکھا گیا ہے۔(3)۔ امام مالکؒ کی یہ عادت تھی کہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں سے گزرتے ہوئے راستہ کے درمیان چلنے کی بجائے دیواروں کے قریب چلتے،
پوچھنے پر فرمایا ممکن ہے کہ ان راستوں پر نبی کریمؐ کے مبارک قدموں کے نشان موجود ہوں، اگر میرے قدم ان نشانوں پر آ گئے تو سخت بے ادبی ہو گی۔(4)۔ امام شافعیؒ نے ایک مرتبہ امام مالکؒ سے پوچھا کہ آپ کے پاس سواری کے لیے بہترین گھوڑے موجود ہیں، مگر آپ مدینہ منورہو میں گھوڑے پر سوار کیوں نہیں ہوتے؟ آپ نے فرمایا، مجھے زیب نہیں دیتا کہ جس مقدس جگہ پر میرے آقاؐ کے مبارک قدم لگے ہوں، میں اس جگہ کو گھوڑے کے سموں سے پامال کروں۔















































