امیرالمومنین خلیفہ ہارون الرشید نہایت حاضر جواب شخص تھا۔ ایک روز اس نے کہا کہ میری تمام عمر میں تین شخصوں نے گفتگو میں مجھ پر غلبہ حاصل کیا۔اول مادر فضل سہیل جو کہ اس کے ماتم میں نہایت گریہ زاری کرتی تھی۔
میں نے اس سے کہا کہ اس کے بجائے میں تیرا بیٹا ہوں اور تجھ کو اس سے زیادہ عزت و احترام اور آسائش و آرام کے ساتھ رکھوں گا، اس نے کہا، ایسے فرزند کی موت پر جس کے باعث مجھے تیرے جیسا بااقبال و فرمانبردارفرزند ہاتھ آئے، کیوں گریہ و زاری نہ کروں۔دوسرے ایک سیاح نے مصر میں دعویٰ پیغمبر کیا اور کہا کہ میں موسیٰ بن عمران ہوں۔ اس کو میرے پاس لایا گیا۔ میں نے کہا کہ موسیٰ بن عمران کے پاس تو معجزات تھے۔ یدبیضاء اور عصاء وغیرہ تو بھی کوئی معجزہ دکھلا۔ اس نے کہا موسیٰ نے معجزات اس وقت دکھائے تھے جب فرعون نے دعویٰ خدائی کیا اور کہا ’’انا ربکم الاعلیٰ‘‘ تو بھی دعویٰ کر، تاکہ میں معجزات دکھاؤں۔تیسرے ایک علاقہ کے ایک دہقان میرے پاس اس علاقہ کے حاکم کی شکایت لائے۔ میں نے کہا وہ شخص تو عالم و عادل اور پارسا و امین ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’واجب ہے کہ اس کے عدل کا فائدہ تمام خلق کو پہنچایا جائے، نہ کہ صرف ہم ہی اس کے فائدے کے ساتھ مخصوص رکھے جائیں اور دوسرے لوگ اس کے عدل و امانت اور علم و پارسائی کے فوائد سے محروم رہیں۔