حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ایک پرندہ اڑا اور چونکہ باغ گنجان تھا اس لئے اس کو جلدی سے باہر جانے کا راستہ نہ ملا،کبھی اس طرف کبھی اس طرف اڑتا رہا اور نکلنے کا راستہ ڈھونڈتا رہا۔ ان کی نگاہ اس پر پڑی اور اس منظر کی وجہ سےادھر خیال لگ گیا اور نگاہ اس پرندے کے ساتھ پھرتی رہی۔دفعۃً نماز کا خیال آیا تو سہو ہو گیا کہ کونسی رکعت ہے،
نہایت قَلَق ہوا کہ اس باغ کی وجہ سے یہ مصیبت پیش آئی کہ نماز میں بھول ہوئی،فوراً حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا قصہ عرض کر کے درخواست کی کہ اس باغ کی وجہ سے یہ مصیبت پیش آئی، اس لئے میں اس کو اللہ کے راستہ میں دیتا ہوں۔آپ جہاں دل چاہے اس کو صرف فرما دیجئے۔اسی طرح ایک اور قصہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں پیش آیا کہ ایک انصاری اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے،کھجوریں پکنے کا زمانہ شباب پر تھا اور خوشے کھجوروں کے بوجھ اور کثرت سے جھکے پڑے تھے، نگاہ خوشوں پر پڑی اور کھجوروں سے بھرے ہونے کی وجہ سے بہت ہی اچھے معلوم ہوئے۔ خیال ادھر لگ گیا جس کی وجہ سے یہ بھی یا د نہ رہا کہ کتنی رکعتیں ہوئیں۔ اس کے رنج اور صدمہ کا ایسا غلبہ ہوا کہ اس کی وجہ سے یہ ٹھان لی کہ اس باغ ہی کو اب نہیں رکھنا جس کی وجہ سے یہ مصیبت پیش آئی۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آ کر عرض کیا کہ یہ اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوں، اس کو جو چاہے، کیجئے۔ انہوں نے اس باغ کو پچاس ہزار میں فروخت کر کے اس کی قیمت دینی کاموں میں خرچ فرما دی(موطا امام مالک)