ایک صاحب نے زمین خریدی اور دوسرے نے زمین بیچی. خریدنے والے نے ہل چلاۓ. جب گہرا ہل چلایا گیا تو اس زمین میں سے ایک صندوق برآمد ہوا. اس کے اندر سونا چاندی بھرا ہوا تھا. پہلے زمانے کے لوگ سونا چاندی کو محفوظ کرنے کیلئے زمین میں دبا دیتے تھے. جب وہ خزانہ نکلا تو وہ آدمی بڑا حیران ہوا. اس نے سوچا کہ میں نے تو اس سے زمین خریدی تھی. خزانہ تو نہیں خریدا تھا،
لہذا اگلے دن وہ بیچنے والے کے پاس گیا اور جاکر کہنے لگا، جی زمین سے یہ خزانہ نکلا ہے، یہ آپ کا ہے اور آپ مجھ سے لے لیجئے. جب یہ دینے لگا تو اس بندے نے کہا، نہیں بھئی! جب میں زمین بیچ دی تو اس کے بعد اس میں سے جو نفع نکلے گا وہ آپ کا ہوگا، میرا نہیں ہوگا، لہذا یہ میرا نہیں بلکہ آپ کا ہے.اب ان کا آپس میں اختلاف راۓ ہوگیا. لہذا فیصلہ کروانے کے لئے دونوں جج کے پاس آے. جب ہم صحیح معنوں میں مسلمان تھے تو ہمارے ایسے مقدمے عدالتوں میں آتے تھے کہ ایک کہتا تھا کہ یہ میرا حق نہیں، میرے بھائی کا حق ہے. دوسرا کہتا تھا کہ میرا نہیں، میرے بھائی کا حق ہے. جج صاحب! فیصلہ کردیجئے . آج کے تو معاملات ہی اور ہیں. ایک کہتا کہ اپنے حق کی خاطر خون کا آخری قطرہ بھی بہا دوں گا، جبکہ دوسرا کہتا ہے کہ میں اپنے حق کی خاطر یہ کردوں گا. اس لئے آج عدالتوں میں جاؤ تو عداوتیں ملتی ہیں.سیدنا کعب رضی الله عنہ کی عدالت میں مقدمہ پیش کیا گیا. جج بھی حیران تھے کہ اس مقدمے کا فیصلہ کیسے کریں! اس وقت کے جج صاحب بھی تقویٰ والے لوگ تھے. الله نے ان کے دلوں کو معرفت کے نور سے بھرا ہوا تھا. انہوں نے ان دونوں سے ان کی زندگی کے حالات پوچھے. اس طرح ان کو پتہ چل گیا
کہ ان میں سے ایک کے گھر میں بیٹا جوان تھا اور دوسرے کے گھر میں بیٹی جوان تھی. چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ اگر تم مجھ سے مشورہ لیتے ہو تو میں یہ مشورہ دوں گا کہ بہتر ہے کہ اس بیٹے اور اس بیٹی کا آپس میں نکاح کر دیا جاۓ اور یہ خزانہ ان دونوں کو ہدیہ میں دے