جہاں کہیں کچرا دکھائی دیتا ہے، اس کو وہ اپنے تھیلے میں ڈال لیتا ہے۔ لوگوں نے جب اس سے پوچھا کہ اس کو کچرا اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے جب کہ اس کام کے لئے سرکاری عملہ موجود ہے؟ تو وہ جواب دیتا ہے کہ صفائی ان کی عادت ہے۔ وہ کہیں بھی کچرا پڑا ہوا دیکھ نہیں سکتے۔ یو کے پڑوسی اور دوست ان کو ’باس آف کلیننگ‘ کہتے ہیں۔ یو کو دیکھ کر ایسا ہی لگتا ہے کہ اس کو کچرے سے سخت نفرت ہے، یہاں تک کہ وہ سگریٹ کے ٹکڑے بھی سڑک پر پڑے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ دِلچسپ بات یہ ہے کہ اس طرح جمع کئے گئے کچرے کو یو کہیں پھینکتا نہیں ہے بلکہ اس کو جمع کرکے ری سائیکلنگ کے لئے اپنے ملک بھیج دیتا ہے۔
مزید پڑھیے:ایفل ٹاور کا ایک نیا اور دِلچسپ پہلو
اس طرح یو کو اس کچرے سے آمدنی بھی حاصل ہورہی ہے۔ یو کی یہ عادت کبھی کبھی مہنگی بھی پڑجاتی ہے۔ عام طور پر بلدیہ کے ملازمین یونیفارم میں ہوتے ہیں۔ جب لوگ بغیر یونیفارم یو کو کچرا اُٹھاتے دیکھتے ہیں تو اس کے اطراف جمع ہوجاتے ہیں۔ ایک مرتبہ پولیس نے اس کو اس طرح کچرا اُٹھاتے دیکھ کر گرفتار بھی کرلیا تھا۔ یو غیر ملکی ہونے کی وجہ سے مقامی افراد اس کو شک کی نظر سے بھی دیکھتے ہیں۔