جمعہ‬‮ ، 15 اگست‬‮ 2025 

عہد ساز شخصیت نیلسن منڈیلا

datetime 4  اکتوبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نیلسن منڈیلا کی رحلت سے دنیا ایک ایسے عظیم رہنما سے محروم ہوگئی ۔انہوں نے اپنے وطن سے نسلی امتیاز‘ ظلم اور نفرتوں کے خاتمے کے لیے تشدد سے پاک تحریک چلاکر اور اسے حتمی کامیابی سے ہم کنار کرکے دنیا بھر کے مظلوم لوگوں کے لیے ایک قابل تقلید مثال قائم کی۔ منڈیلا کا ملک جنوبی افریقہ کئی دہائیوں تک گورے حکمرانوں کی نسلی امتیاز کی پالیسی کی بنیاد پر روا رکھی جانے والی بے انصافیوں اور اس کے نتیجے میں مقامی سیاہ فام آبادی کے ردعمل کی بناء پر نفرتوں کا جہنم بنا رہا۔ منڈیلا نے اپنے دور جوانی میں نسلی امتیاز کے خلاف تحریک میں شمولیت اختیار کی جس کی پاداش میں انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ تاہم اپنی 27 سالہ طویل قید کے دوران بھی وہ نسلی امتیاز کے خلاف مہم کی رہنمائی کرتے رہے۔ اپنے ہم نسلوں کو منڈیلا نے تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دے کر اجتماعی زندگی میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل بنانے پر توجہ دی۔ تشدد کے بجائے دلیل سے اپنا مقدمہ لڑنے کی تلقین کی۔ بالآخر ان کی رہائی عمل میں آئی اور انہوں نے جنوبی افریقہ میں نسل پرست حکومت کے بجائے منتخب جمہوری حکومت کے قیام کے لیے بات چیت اور قومی مفاہمت کی راہ اختیار کی۔ بدلے ہوئے حالات میں سفید فام اقلیت کے لیے بھی منڈیلا کی تجاویز کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا ‘لہٰذا جنوبی افریقہ میں عام انتخابات کے ذریعے جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا اور نیلسن منڈیلا ہی ملک کے پہلے سربراہ منتخب ہوئے۔ ماضی کے زخموں کا ازالہ کرنے کے لیے منڈیلا نے ٹرتھ اینڈ ری کنسی لی ایشن کمیشن بنایا۔انہوں نے مجموعی طور پر انتقام کے بجائے معافی کی پالیسی اپنائی۔ صدارت کے منصب سے الگ ہونے کے بعد بھی وہ انسانیت کی خدمت کے کاموں میں لگے رہے اور پوری دنیا کے مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرتے رہے۔ بلاشبہ نیلسن منڈیلا کی جدوجہد میں دنیا کے تمام مظلوم لوگوں کے لیے رہنمائی موجود ہے اور اس مثال کی پیروی کرکے وہ تشدد اور نفرت کے پرچار کے بغیر کامیابی کی منزل کی جانب پیش قدمی کرسکتے ہیں۔ زیر نظر تحریر ان کی خدمات کا اعتراف ہے۔

میں ایک مثالی جمہوریت اور آزاد معاشرے کا خواہش مند ہوں‘ جس میں تمام لوگ امن سے زندگی بسر کریں اور انہیں ایک جیسے مواقع میسر ہوں‘یہ میرا تصور ہے جسے مکمل کرنے کے لیے میں زندہ ہوں لیکن اگر ضرورت پڑی تو اس کی خاطر مرنے کے لیے بھی تیار ہوں
نیلسن منڈیلا18جولائی 1918 میں ’کوسا‘ زبان بولنے والے تھیم بو قبیلے میں پیدا ہوئے جو جنوبی افریقہ کے مشرقی حصے میں چھوٹا سا گاؤں ہے۔ جنوبی افریقہ میں انھیں ان کے خاندانی نام ’’مادیبا‘‘سے پکارتے تھے۔ان کا پیدائشی نام رولہلاہلا تھا جبکہ ان کے سکول کے استاد نے ان کا انگریزی نام ’نیلسن‘ رکھا۔جب نیلسن نو برس کے تھے تو ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ وہ تھم بو شاہی خاندان کے مشیر تھے۔ والد کے انتقال کے بعد شاہی خاندان کے بادشاہ‘ جونگن تابا دلن دائبو‘ نے نیلسن کو تھیم بو لوگوں کے قائم مقام مشیر کی سرپرستی میں دے دیا۔نیلسن منڈیلا نے 1943 میں افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) میں شمولیت اختیار کی۔ پہلے وہ صرف ایک کارکن تھے تاہم بعد میں وہ اے این سی یوتھ لیگ کے بانی اور صدر بنے۔قید کے کئی برسوں کے بعد بھی وہ اس تنظیم کے صدر رہے۔انھوں نے 1944 میں پہلی شادی ایویلن میسی سے کی لیکن 1957 میں ان کی طلاق ہوگئی‘ اس شادی سے ان کے تین بچے ہوئے۔منڈیلا نے وکالت پڑھی اور 1952 میں اپنے ساتھی اولیور تیمبو کے ساتھ مل کر جوہانسبرگ میں آفس کھولا اور پریکٹس شروع کی۔منڈیلا نے اپنے دوست تیمبو کے ساتھ مل کر نسل پرستی کے اس نظام کے خلاف مہم چلائی جسے سفید فام افراد پر مشتمل جماعت نیشنل پارٹی نے وضع کیا تھا اور جس سے سیاہ فام اکثریت کا استحصال ہو رہا تھا۔1956 میں منڈیلا اور 155 دیگر کارکنوں پر غداری کا الزام عائد کیا گیا۔ یہ مقدمہ چار سال چلا اور اس کے بعد یہ الزامات خارج کر دیے گئے۔نسل پرستی کے خلاف مزاحمت اس وقت بڑھی جب ملک میں ایک نیا قانون بنا۔ اس نئے قانون میں سیاہ فام لوگوں کو رہائش اور روزگار سے متعلق ہدایات تھیں۔1958 میں منڈیلا نے ونی میدیکیذیلا سے دوسری شادی کی جنہوں نے بعد میں اپنے شوہر کی قید سے رہائی کی مہم میں بہت اہم کردار ادا کیا(یہ شادی بھی 1996ء میں اختتام کو پہنچی)۔اے این سی کو 1960 میں کالعدم قرار دے دیا گیا اور منڈیلا روپوش ہوگئے۔نسل پرست حکومت کے خلاف ملک میں تناؤ مزید بڑھ گیا اور 1960 میں یہ اْس وقت انتہا کو پہنچ گیا جب پولیس نے 69 سیاہ فام افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔یہ واقعہ جنوبی افریقہ میں پْرامن مزاحمت کا خاتمہ ثابت ہوا۔ اس وقت اے این سی کے نائب صدر مسٹر منڈیلا نے ملکی معیشت کے سبوتاژ کی مہم چلا دی۔منڈیلا کو گرفتار کر لیا گیا اور ان پر سبوتاژ اور تشدد کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے الزامات عائد کیے گئے۔ریوونیا کے کمرہ عدالت میں خود اپنا دفاع کرتے ہوئے منڈیلا نے جمہوریت‘ آزادی اور برابری کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔انھوں نے کہا کہ ’’میں ایک مثالی جمہوریت اور آزاد معاشرے کا خواہش مند ہوں‘ جس میں تمام لوگ ایک ساتھ امن سے زندگی بسر کریں اور انھیں ایک جیسے مواقع میسر ہوں‘یہ میرا تصور ہے جس کو مکمل کرنے کے لیے میں زندہ ہوں لیکن اگر ضرورت پڑی تو اس کی خاطر مرنے کے لیے بھی تیار ہوں‘‘۔انیس سو چونسٹھ کے موسمِ سرما میں انھیں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔1968 اور 1969 کے بارہ ماہ کے دوران منڈیلا کی والدہ کا انتقال ہوا اور ان کا بڑا بیٹا کار حادثے میں ہلاک ہوگیا لیکن انھیں ان کی آخری رسومات میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔انھیں اٹھارہ برس تک جزیرہ رابن کی جیل میں قید رکھا گیا اور پھر انیس سو بیاسی میں پولزمور جیل میں منتقل کیا گیا۔منڈیلا اور اے این سی کے دیگر رہنماؤں کی قید اور جلا وطنی کے دوران جنوبی افریقہ کے سیاہ فام نوجوانوں نے سفید فام اقلیت کی حکومت کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔حکومت کی جانب سے نوجوانوں کے اس انقلاب کو دبانے کے دوران کئی لوگ ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔انیس سو اسی میں اولیور تیمبو نے منڈیلا کو رہا کروانے کے لیے بین الاقوامی مہم کا آغاز کیا حالانکہ وہ خود جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔بین الاقوامی برادری نے جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے خلاف انیس سو سڑسٹھ میں لگائی جانے والی پابندیوں کو مزید سخت کر دیا۔اس دباؤ کا نتیجہ یہ نکلا کہ انیس سو نوے میں جنوبی افریقہ کے صدر ایف ڈبلیو ڈی کلارک نے اے این سی پر عائد پابندی ختم کر دی اور منڈیلا کو بھی رہا کر دیا۔ اس کے بعد جنوبی افریقہ میں ایک نئی مختلف النسل جمہوریت کے قیام کے لیے بات چیت شروع ہوئی۔منڈیلا نے 1992 میں اپنی بیوی وِنی کو اغواء اور تشدد کے الزامات میں سزا ملنے کے بعد طلاق دے دی۔
دسمبر 1993 میں نیلسن منڈیلا اور ڈی کلارک کو امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔اس کے پانچ ماہ بعد جنوبی افریقہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری الیکشن ہوئے‘ جس میں تمام نسلوں کے افراد نے ووٹ ڈالے اور منڈیلا کو صدر چن لیا گیا۔انھیں اپنے اقتدار میں جو سب سے بڑے مسائل درپیش رہے ان میں غریب افراد کے لیے گھروں کی کمی اور شہروں میں پھیلتی ہوئی کچی آبادیاں تھیں۔انھوں نے حکومتی معاملات اپنے نائب تھابو میبکی کو سونپے اور خود جنوبی افریقہ کی نئی بین الاقوامی ساکھ بنانے میں مصروف ہو گئے۔وہ ملک میں موجود بین الاقوامی اداروں کو وہیں رہنے اور سرمایہ کاری کرنے کے لیے قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔18 جولائی 1998کو نیلسن منڈیلا نے اپنی 80ویں سالگرہ پرموزمبیق کے سابق صدر کی بیوہ گریکا مچل سے تیسری شادی کی اور دنیا کے دورے جاری رکھے‘ اہم رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور کانفرنسوں میں شرکت کی۔ عہدہ صدارت چھوڑنے کے بعد انھیں کئی اعزازات سے نوازا گیا۔اپنی باقاعدہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ زیادہ تر عوامی اجتماعات میں اپنے فلاحی ادارے ’منڈیلا فاؤنڈیشن‘ کے لیے کام کی غرض سے نظر آتے تھے۔نیلسن منڈیلا نے اپنی 89 ویں سالگرہ پر دنیا بھر کی نمایاں شخصیات پر مشتمل ایک گروپ ’دی ایلڈرز‘ قائم کیا تاکہ ’دنیا کو درپیش مشکل ترین مسائل سے نمٹنے کے لیے‘ ان افراد کی کی مہارت اور رہنمائی حاصل کی جا سکے۔انھوں نے حالیہ برسوں میں جو سب سے بڑا کام کیا وہ 2005 میں ان کے بیٹے ماکگاتھو کی موت پر تھا۔ایک ایسے ملک میں جہاں ایڈز جیسے وبائی مرض کے بارے میں بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے‘ منڈیلا نے اعلان کیا کہ ان کے بیٹے کی موت ایڈز کی وجہ سے ہوئی اور جنوبی افریقہ کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ایڈز کے بارے میں اس طرح سے بات کریں کہ اسے ایک عام بیماری کی طرح سمجھا جائے ۔انہوں نے 2010 کے فٹ بال عالمی کپ کی میزبانی جنوبی افریقہ کو دلوانے کے فیصلے میں اہم کردار ادا کیا اور اس کی اختتامی تقریب میں شرکت بھی کی تھی۔

منڈیلا پھیپڑوں میں انفیکشن کی وجہ سے طویل عرصے سے زیرِ علاج تھے وہ گزشتہ دو برس میں پانچ بار ہسپتال جا چکے تھے۔ اپریل میں انھیں نمونیا کی وجہ سے دس دن ہسپتال میں رہنا پڑا تھا۔ ستمبر 2013 میں بھی کئی روز اسپتال میں رہے‘تاہم ڈسچارج ہونے کے بعد سے انہوں نے بات نہیں کی۔نیلسن منڈیلا5دسمبر2013ء کو 95 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ دنیا اس نابغہ روزگار ہستی کو فراموش نہیں کر پائے گی۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



شیلا کے ساتھ دو گھنٹے


شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…