اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ کے 14 اپریل کا حکم انتخابات کیلئے فنڈز کے اجرا کا حکم اسٹیٹ بینک کیلئے چیلنج بن گیا،اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) ایک کشمکش میں گھرا دکھائی دینے لگا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ نے مرکزی بینک کو ہدایت کی ہے کہ وہ 2 صوبوں میں انتخابات کے لیے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ (ایف سی ایف) سے کل پیر کو 21 ارب روپے جاری کرے۔
ماہرین کے مطابق یہ فنڈ اسٹیٹ بینک کے زیرانتظام نہیں ہے اور نہ ہی یہ اسے کنٹرول کرتا ہے جس سے عدالت عظمیٰ نے جاری کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ قومی اسمبلی پہلے ہی باضابطہ طور پر اس کے اجرا کی مخالفت کر چکی ہے۔اسٹیٹ بینک کے ایک سابق بینکر نے کہا کہ قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر وفاقی حکومت کے اکاؤنٹ سے رقم کے اجرا کی ہدایت غیرمعمولی ہے۔اسٹیٹ بینک کے ایک سابق ڈپٹی گورنر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی بینک میں پیسے جمع کرانے والے کی رضامندی کے بغیر اس کے اکاؤنٹ سے ادائیگی کرنے کو کہا جائے۔ریٹائرڈ ڈپٹی گورنر کے مطابق مروجہ قانون کے تحت واحد ممکنہ راستہ یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک اپنی ہی نقد رقم سے روپے عطیہ کردے، یہ ایک پروویژن کے تحت کیا جا سکتا ہے جو اسٹیٹ بینک کو بینکنگ اور فنانس میں تحقیق کے فروغ کیلئے اپنے وسائل استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔وفاقی حکومت کے ایک اعلیٰ ترین عہدے سے ریٹائر ہونے والے بیوروکریٹ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 190 کے تحت (جو سپریم کورٹ کی ایکشن ان ایڈ سے متعلق ہے) عدالت پارلیمنٹ کو ہدایات جاری نہیں کر سکتی۔آئین کہتا ہے کہ تمام ایگزیکٹو اور جوڈیشل اتھارٹیز کو سپریم کورٹ کی معاونت سے کام کرنا چاہیے۔
دوسرے لفظوں میں عدالت عظمیٰ وفاقی کابینہ کو ہدایت جاری کر سکتی ہے (جو کہ ایگزیکٹو کا حصہ ہے) تاہم مقننہ کے لیے ہدایات جاری نہیں کرسکتی جو کہ پارلیمنٹ ہے۔حکومت کے مطابق فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے رقم کے اجرا کے لیے پارلیمنٹ کے ایکٹ کی ضرورت ہے، وفاقی کابینہ نے پہلے ہی 9 اپریل کو فنانس ڈویژن کی جانب سے پیش کردہ ایک بل کی منظوری دیدی ہے جس کا عنوان چارجڈ سم فار جنرل الیکشن (پروونشل اسمبلیز آف پنجاب اینڈ کے پی) ایکٹ 2023 تھا، بعد ازاں یہی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جس نے اس بل کو مسترد کر دیا۔
ریٹائرڈ بیوروکریٹ نے آئین کے مطابق ریاست کے 3 ستونوں (مقننہ، ایگزیکٹو اور عدلیہ) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ طاقت کے مراکز کو کسی کی خواہش پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ایک لا فرم کے شراکت دار بیرسٹر صلاح الدین احمد نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے اس حصے پر ایک سوالیہ نشان ہے جس کے تحت حکومت کو 21 ارب روپے فنڈز کے لیے قومی اسمبلی سے منظوری لینے کی ضرورت ہے، کوئی کیسے توقع کر سکتا ہے کہ پارلیمنٹ سے اس گرانٹ کی منظوری ملے گی جس نے پہلے ہی اس سے انکار کر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومت رقم خرچ کرنے کے بعد منظوری لینے میں ایک بار پھر ناکام ہوگئی تو کیا یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟ نجی ٹی وی کے مطابق اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کے ترجمان سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا گیاتاہم کوئی باضابطہ گفتگو نہیں ہوسکی۔