وزیر خزانہ وفد کے ہمراہ آئی ایم ایف کو منانے واشنگٹن جائیں گے، نئی تجاویز پیش کئے جانے کا امکان

3  اپریل‬‮  2023

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی قیادت میں پاکستان کا اعلیٰ اختیاراتی وفد 10 سے 16 اپریل 2023 تک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نام سے مشہور بریٹن ووڈ انسٹی ٹیوشنز (بی ڈبلیو آئیز) کے آئندہ سالانہ موسم بہار کے اجلاس میں شرکت کے لیے واشنگٹن ڈی سی کا دورہ کرنے والا ہے۔روزنامہ جنگ میں مہتاب حیدر کی خبر کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار،

سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری اقتصادی امور ڈویژن اور گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان پر مشتمل سرکاری وفود کے ساتھ اقتصادی افق پر ڈیفالٹ خطرات سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سامنے جاری پروگراموں کی بحالی کے لیے ڈالر کی آمد کے لیے نئی تجاویز پیش کر سکتے ہیں.توقع ہے کہ پاکستانی وفد آئی ایم ایف کے اعلیٰ حکام سے تعطل کا شکار فنڈ پروگرام کی بحالی کے لیے آئندہ بات چیت میں درخواست کرے گا۔دونوں فریق زیر التواء 9ویں جائزے کو کامیابی سے مکمل کرنے کی صورت میں 6.5 ارب ڈالرز کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پروگرام کے تحت بقیہ 10ویں اور 11ویں جائزے کو یکجا کرنے کے امکان پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔ای ایف ایف کے تحت آئی ایم ایف پروگرام کی میعاد 30 جون 2023 کو ختم ہو رہی ہے اور طے شدہ رہنما خطوط کے تحت پروگرام کو طے شدہ آخری تاریخ سے آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف ای ایف ایف پروگرام کی تکمیل کے لیے کس طرح آگے بڑھیں گے جب کہ دسویں جائزہ میں پہلے ہی تاخیر ہو چکی ہے۔زیر التواء 9واں جائزہ دسمبر میں مکمل ہونا تھا اور 10واں جائزہ فروری 2023 سے شروع ہونا چاہیے تھا۔

11واں جائزہ 3 مئی 2023 سے شروع ہونا تھا لیکن زیر التواء 9ویں جائزے نے اسے اقتصادی محاذ پر ایک گندگی کا ڈھیر بنا کر رکھ دیا ہے۔ اب تاخیری فیصلے سے صورتحال کو سدھارنے کی لاگت بڑھ جائے گی۔پاکستان کی بیمار معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے کوئی آسان حل نہیں ہے۔حکومت نے دلیل دی کہ انہوں نے آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرنے کے لیے تمام سخت فیصلے لیے۔

اب آئی ایم ایف ڈالر کی امداد کی فراہمی کے لیے پاکستان کے دو طرفہ دوستوں سے تصدیق طلب کر رہا ہے جس میں مملکت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے جون 2023 کے آخر تک 6 ارب ڈالر حاصل کیے جائیں گے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 4.2 ارب ڈالر تھے جو کہ پرنسپل اور مارک اپ سمیت غیر ملکی قرضوں کی سروسنگ کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے بھی کافی نہیں ہیں۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…