اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر ملک کو درپیش چیلنجوں سے نکالنے کیلئے تمام سیاسی قیادت کو مل بیٹھنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ معاشی اصلاحات، معاشی ایجنڈا، کفایت شعاری سمیت اہم اقدامات اور معاملات پر پوری سیاسی قیادت کو سیاسی اختلافات ایک طرف کرکے مل بیٹھ کر فیصلے کرکے عمل پیرا ہونا ہو گا،
اگر کوئی لیڈر پاکستان کو تباہ کرنے پر تلا ہے تو اسے اس کی اجازت نہیں دیں گے،قومی اور عوامی مفاد کو دائو پر نہیں لگنے دیں گے، ہم ملکی حالات خراب کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے، آئی ایم ایف کا پروگرام جلد ہونے کی توقع ہے ،۔یہ مستقل حل نہیں، پاکستان بڑی قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آیا، اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا مقام ضرور حاصل کرے گا۔ جمعرات کو سینٹ آف پاکستان کی 50 سالہ گولڈن جوبلی تقریبات کے دوسرے روز کمیٹی آف دی ہول سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سینٹ آف پاکستان کے 50 سالہ گولڈن جوبلی کو شایان شان اور سادگی سے منانے کیلئے اس سیشن کے انعقاد پر چیئرمین سینٹ، ٹیم اور تمام سینیٹرز کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، یہ کام سرانجام دے کر ایک قومی خدمت کی ہے، یہ بات ایک بار پھر 1973ء کے آئین کی طرف جاتی ہے جب پہلی مرتبہ پاکستان کے چاروں صوبوں کو برابر کے حقوق دینے کیلئے آئین پاکستان کے خالق ذوالفقار علی بھٹو اور تمام ملک کے زعماء اور لیڈرشپ نے یہ تاریخی کام سرانجام دیا اور آج 50 سال گزر گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سینٹ میں قانون سازی، زندگی کے تمام شعبوں پر بڑی عرق ریزی، محنت اور سنجیدگی کے ساتھ ان 50 سالوں میں اپنی ذمہ داری ادا کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مختلف ممالک کے سفراء اور ہائی کمشنرز کو یہاں دعوت دی گئی، ہم ان سب کے مشکور ہیں، انہوں نے یہاں پر بڑی قابل تعریف تقاریر کیں، ہم پاکستان کی گذشتہ سال سیلاب کے دوران ان کی قابل قدر امداد پر ان کے مشکور ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت مشکل چیلنجوں سے گزر رہا ہے،
اسے امپورٹڈ افراط زر کا سامنا ہے جو یوکرین کی جنگ کا شاخسانہ ہے جس کی وجہ سے اشیاء خوردونوش، تیل، گیس، کھاد کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہوا ہے، پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک اس صورتحال کا بدترین شکار ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب ہم نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت ہماری معیشت کو بڑے بحرانوں کا سامنا تھا، بدقسمتی سے گذشتہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کئے،
معاہدہ کیا تاہم ہم نے ان شرائط کا پاس نہیں کیا، اس نے نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ دیگر عالمی اداروں میں پاکستان کی ساکھ اور اعتماد کو نقصان پہنچایا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ان حالات میں ہم نے ایک آئینی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے حکومت سنبھالی، اس وقت ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا تھا جن میں دو بڑی مشکلات درپیش تھیں جن میں ایک گذشتہ حکومت کی جانب سے فنڈز کا بے دریغ استعمال تھا،
انہوں نے خزانہ میں کوئی فنڈز نہیں چھوڑے، نوٹ چھاپتے گئے اور بجٹ کے بغیر بے شمار سبسڈیز دیتے رہے جبکہ دوسری مشکل بڑے پیمانے پر ذمہ داریوں کے حوالے سے تھی، اتحادی حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہم نے پاکستان کی ریاست کا تحفظ کرنا ہے، اس حوالہ سے ہم نے کفایت شعاری سمیت کئی ٹھوس اقدامات اٹھائے گو کہ ان اقدامات سے پاکستان کے عام آدمی کیلئے مشکل صورتحال بنی تاہم ہم نے ایسے فیصلوں کو اپنانے میں کسی لیت و لعل سے کام نہیں لیا
جس پر ہماری اتحادی حکومت اور اس میں شریک جماعتوں کے سربراہان نے واضح طور پر یہ مؤقف اختیار کیا کہ ہم نے ریاست کو بچانے کیلئے سیاست کو قربان کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ گو کہ ہم اس وقت مشکل حالات سے گزر رہے ہیں لیکن اگر آپ اپنے مشن سے مخلص ہوں تو ان مشکل حالات سے بھی نکلیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور میری دیگر ٹیم انتھک کام کر رہے ہیں، شیری رحمن نے گذشتہ سال سیلاب کے دوران دن رات کام کیا،
انہوں نے کلائمیٹ ریزیلیئنٹ کے حوالہ سے پاکستان کا ایک بیانیہ دیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم کوئی فرشتے نہیں ہیں، ہم سے بھی خطائیں ہوتی ہیں لیکن ہم اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں، جو شخص اپنی غلطی کو تسلیم کر لے وہ بڑا انسان ہوتا ہے، ماضی میں شدید اختلافات کے باوجود پاکستان کے عظیم تر مفاد کیلئے سیاسی قیادت مل بیٹھتی تھی، ان میں شاید انفرادی طور پر بعض ایک دوسرے سے بات کرنے کے روادار بھی نہیں تھے تاہم پاکستان کی تاریخ میں کئی ایسے مواقع آئے
جب سیاسی قیادت اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے زعماء مل بیٹھے اور بڑے سے بڑے بحرانوں پر گفت و شنید کی اور ان کے حل نکالے، 1965ء کی جنگ میں پوری قوم ایک لڑی میں پروئی ہوئی تھی اور وطن کے دفاع کیلئے سب ایک تھے، اس وقت وطن کے دفاع کیلئے مسلح افواج کے جوانوں کی جس طرح پذیرائی ہو رہی تھی وہ قابل تعریف تھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ 1971ء کی جنگ کے بعد جب وزیراعظم شملہ روانہ ہوئے تو پورے ملک کے زعماء اور قیادت انہیں الوداع کہنے لاہور ایئرپورٹ پر موجود تھی کہ وہ جا کر پاکستان کا مقدمہ لڑیں،
2014ء میں جب دہشت گردی سے پوری قوم پریشان تھی اور دہشت گردی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اس دہشت گردی کے خلاف اس قوم نے بے پناہ قربانیاں دیں، اس وقت وزیراعظم محمد نواز شریف نے ایپکس کمیٹی کا انعقاد کیا اور وہاں پر ایک چھت تلے سب اکٹھے ہوئے اور 2016ء میں سانحہ پشاور کا واقعہ ہوا جس نے دنیا بھر کے درد دل رکھنے والے لوگوں کو غمناک کر دیا، اس کے بعد سیاسی اور دینی جماعتوں کے سربراہان ایک چھت تلے بیٹھے، ان تمام واقعات کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ زندہ قومیں کس طرح چیلنجوں کا سامنا کرتی ہیں اور اجتماعی ذہانت اور گفتگو کے ساتھ اپنے مسائل کا حل تلاش کرتی ہیں،
اسی طرح 2020ء میں کورونا کی وجہ سے پاکستان آنے والی پروازوں پر پابندی لگی تو آخری آنے والی پرواز میں پاکستان آیا، اس پر طرح طرح کی باتیں کی گئیں، سپیکر قومی اسمبلی نے اس دوران کورونا پر ایک اجلاس منعقد کیا، یہ کام وزیراعظم کا تھا لیکن انا اور تکبر ان کے آڑے آ گیا اور پاکستان کے مخدوش صورتحال اور کوویڈ سے متاثرہ کروڑوں لوگوں کا خیال نہیں رکھا گیا، اپوزیشن نے مشورہ کرکے اس اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا، ہم نے اپنی انا کو اپنے پائوں کی زنجیر نہیں بننے دیا کیونکہ پاکستان کے عوام کا مقدمہ اور مفاد ہمیں عزیز تھا، یہ اجلاس زوم پر ہو رہا تھا، اس وقت کے وزیراعظم نے اپنی بات کی،
اس کے بعد میں نے بات کرنا تھی تو میں نے سپیکر سے قائد ایوان کی موجودگی کے حوالہ سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ انہیں ضروری کام پڑ گیا ہے وہ چلے گئے ہیں، اس وقت کوویڈ سے پوری دنیا متاثر تھی، لاکھوں لوگ موت کے منہ میں جا رہے تھے، اس اجلاس سے زیادہ ضروری کیا کام تھا اس کو انا پرستی کہتے ہیں، قومی مفاد کو اپنے ذاتی مفاد اور انا کیلئے قربان کرنا اسی کو کہتے ہیں، اس کے بعد فروری 2019ء میں ہندوستان کے جہازوں نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، اس دوران قومی اسمبلی اور سینٹ کے اراکین کو اس وقت کے وزیراعظم اور آرمی چیف کی طرف سے پریزنٹیشن دی جانی تھی،
ہم ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرتے رہے، یہ ایک قومی مسئلہ تھا کسی کی ذات کا مسئلہ نہیں تھا، یہ پاکستان کے دفاع اور سالمیت اور 22 کروڑ عوام کی ناموس کا معاملہ تھا اس کیلئے ہم اکٹھے ہوئے تھے، ڈیڑھ گھنٹہ بعد جنرل (ر) باجوہ نے ہمیں پریزنٹیشن دی لیکن وزیراعظم اس بحرانی صورتحال میں بھی ہمارے ساتھ نہیں بیٹھے، قوم کا لیڈر انا پرست نہیں ہوتا، اس میں تکبر، غصہ نہیں ہوتا بلکہ وہ محبتیں بانٹتا ہے، سب کے ساتھ مل کر مسائل کا حل نکالتا ہے، محبت، یگانگت، یکسوئی اور پاکستانیت کا پیغام دیتا ہے، آج سیاستدان گالی بن چکا ہے، آج پاکستان کے نظام کو تہہ و بالا کرنے کیلئے اسے آخری دھکا لگایا جا رہا ہے، میں نے اپنی زندگی میں اس طرح کے مخدوش اور خراب حالات نہیں دیکھے،
عدالتوں کے احکامات اور قوانین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، اداروں کی بے توقیری کی جا رہی ہے اور گھیرائو، جلائو کی تحریک کو ہوا دی جا رہی ہے، ایسے حالات میں گولڈن جوبلی تقریبات پر چیئرمین سینٹ کو تحسین ہے، پاکستان کے موجودہ حالات ایک بڑا چیلنج ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب بے جا اور من گھڑت الزامات کی پاداش میں ہمارے ساتھیوں کو جیلوں میں گھسیٹا جا رہا تھا تو کسی نے اس وقت قانون ہاتھ میں نہیں لیا، قانون کی بے توقیری نہیں کی، ایک فاشسٹ طریقہ سے آرڈیننس کے ذریعے نیب قوانین تبدیل کرکے ریٹائرڈ ججوں کے ذریعے مخالفین کو سزائیں دینے کا طریقہ اپنایا گیا کہ ساری مخالف سیاسی قیادت جیلوں میں ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس کے ساتھ یہ قانون بنایا گیا کہ
جہاں کابینہ کی مشاورت ہو گی وہاں نیب ہاتھ نہیں ڈال سکے گا کیونکہ اس طرح اپنے ساتھیوں کو بچانا مقصود تھا جو کرپشن میں ملوث تھے، کرپشن کے پہاڑوں کو سپریم کورٹ سے حکم امتناعی دلائے گئے، اس صورتحال کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے، 11 ماہ کے دوران کی حکومت میں ایسے راز سامنے آئے جنہیں قومی مفاد کیلئے ان پر سے پردہ نہیں اٹھا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ قومیں اس وقت تک اپنے پائوں پر کھڑی نہیں ہو سکتیں جب تک وہ قربانیاں نہ دیں، دن رات محنت نہ کریں، معاشی نظام کو درست کرنے کیلئے سیاسی استحکام لازمی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اتحادی حکومت جتنی کاوشیں کر رہی ہے اس کا فیصلہ مورخ اور عوام کریں گے، ہماری ٹیم ملک کو ان مشکلات سے نکالنے کیلئے پوری طرح کوشاں ہے،
آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت میں ہم نے ان کی تمام کڑوی شرائط پوری کر دی ہیں، اگلے چند دنوں میں سٹاف لیول معاہدہ کی توقع ہے، اس کے باوجود ابھی تک اس میں ہونے والی تاخیر میں سیاسی عدم استحکام، شور شرابے کا کردار بھی ہے، آئی ایم ایف نے گو کہ اس حوالہ سے کوئی بات نہیں کی تاہم وہ سب دیکھ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ لیڈر عوامی اور قومی مفاد کیلئے ہر چیز قربان کرتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج عدلیہ، قانون، آئی ایم ایف، معاہدے سمیت ہر چیز روندی گئی، ہماری حکومت کو امپورٹڈ حکومت کہا گیا کہ اس کے پیچھے امریکہ ہے، پھر ایک بیانیہ بنایا گیا اور پھر یوٹرن کے بادشاہ نے اس سے بھی یوٹرن لیا کہ اس کے پیچھے امریکہ نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ ایک تکلیف دہ کہانی ہے، اس ایوان کے سامنے حقائق کھول کر رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اگر کوئی لیڈر پاکستان کو تباہ کرنے پر تلا ہے تو اسے اس کی اجازت نہیں دیں گے، ایک مصلحت کے تحت کہ ملک کے معاملات بگڑ نہ جائیں احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا جا رہا تاہم قومی اور عوامی مفاد کو دائو پر نہیں لگنے دیں گے، ہم ملکی حالات خراب کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے، ہم پاکستان کے عظیم مقصد کیلئے اپنی ساری متاع قربان کرنے کیلئے ہمہ تیار ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام جلد ہو جائے گا تاہم یہ سلسلہ کب تک چلے گا، آج تک پاکستان کی تاریخ میں 25 آئی ایم ایف پروگرام آئے جن میں سے کچھ مکمل ہوئے، کچھ ادھورے رہے، آج 75 سال گزرنے کے بعد ہم آئی ایم ایف کے پروگرام اور قرض پر شادیانے بجاتے ہیں، اس طرح قومیں سر اٹھا کر نہیں چل سکتیں، ہم سب کو مل کر سر جوڑ کر، بیٹھ کر فیصلے کرنے ہوں گے، معاشی اصلاحات، معاشی ایجنڈا، کفایت شعاری سمیت دیگر اہم ترین اقدامات اور معاملات پر پوری سیاسی قیادت کو اپنے سیاسی اختلافات ایک طرف کرکے مل بیٹھ کر فیصلے کرکے اس پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ قومی اسمبلی میں 2018ء کے بعد
اپنی پہلی تقریر میں میثاق معیشت کی بات کی اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے اسے ٹھکرایا گیا، ہمیں چور اور ڈاکو پکارا گیا تاہم ابھی بھی وقت ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں اور مل بیٹھ کر اس عظیم پاکستان کو مشکلات سے نکالیں، چند دن بعد 23 مارچ یوم پاکستان آ رہا ہے، جس دن لاکھوں ہندوستانی قائداعظم کی قیادت میں اقبال پارک جمع ہوئے اور قرارداد منظور کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہی قومیں افق پر ابھرتی ہیں جن کے اندر تڑپ اور جذبہ ہو اور تمام تر مشکلات برداشت کریں، چین نے 1949ء میں آزادی حاصل کی، جنوبی کوریا سمیت دیگر ممالک ہم سے بعد میں آزاد ہوئے اور ہم سے آگے نکل گئے۔ وزیراعظم نے ایک بار پھر دعوت دی کہ آئیں سب مل بیٹھ کر پاکستان کو درپیش چیلنجوں سے نکالیں، سازشوں کی بجائے کاوشوں کا راستہ اختیار کریں، خرابی پیدا کرنے کی بجائے اس کو دور کریں، نفرت اور زہر پھیلانے کی بجائے محبت بانٹیں اور قوم کے دکھ درد کو تقسیم کریں، غربت، بے روزگاری، بیماری ختم کریں، اگر ہم نے عملی اقدامات نہ اٹھائے تو بہتری نہیں ہو سکے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے، یہ ضرور اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرے گا ۔