لاہور (این این آئی) لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین و سابق وزیر اعظم عمران خان کو عدالت میں پیش ہوئے بغیر ضمانت دینے سے انکار کر تے ہوئے ریمارکس دیئے کہ حفاظتی ضمانت میں ملزم کی پیشی ضروری ہے، زیادہ مسئلہ ہے تو ایمبولینس میں آجائیں، قانون سب کے لئے برابر ہے،
اگر حفاظتی ضمانت چاہئے تو درخواست گزار لیکر آئیں۔ منگل کے روز ہائیکورٹ میں جسٹس طارق سلیم شیخ نے عمران خان کی میڈیکل گراؤنڈ پرحفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔اسلام آباد کی انسداد دہشتگری عدالت سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان نے حفاظتی ضمانت کے لئے ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ عمران خان کی جانب سے حفاظتی درخواست ضمانت میں موقف اختیار کیا گیا کہ میں سابق وزیراعظم ہوں اور بڑی جماعت کا سربراہ ہوں اور ایساسنگین جرم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا،سیاسی مخالفت پرمقدمہ درج کروایاگیا، سیکرٹریٹ پولیس اسلام آباد نے بلاجواز اور جھوٹا مقدمہ درج کیا۔درخواست میں کہا کہ آزادی مارچ میں جان لیوا حملہ میں زخمی ہوا ہوں، رہاش گاہ سے باہر نہیں جا سکتا۔اسلام آباد عدالت میں پیش نہ ہو سکا، جس پر اے ٹی سی نے عدم پیشی پر ضمانت خارج کردی۔عمران خان نے استدعا کی کہ متعلقہ عدالت سے رجوع کرنا چاہتا ہوں، خدشہ ہے کہ پولیس گرفتار کر لے گی، حفاظتی ضمانت منظور کی جائے۔دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ درخواست گزار کہاں پر ہے اس درخواست کو کس بنیاد پر منظور کریں؟، ہم نے قانون کے مطابق چلنا ہے، جو بھی عدالت آئے گا اس کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہوگا۔عدالت نے ریماکس دیئے کہ اگر آپ کو حفاظتی ضمانت چاہیے تو درخواست گزار کو عدالت پیش کریں، ہم ادھر بیٹھے ہیں آپ درخواست گزار کو ساتھ لے آئیں۔
وکیل درخواست گزرا نے موقف اختیار کیا کہ عمران خان اپنے گھرمیں موجود ہیں کوئی مفرورنہیں، انہیں چلنے میں دشواری کا سامنا ہے۔انہوں نے استدعا کی کہ لاہور ہائیکورٹ متعلقہ عدالت میں سرنڈر کرنے کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کرے جبکہ میڈیکل رپورٹس ساتھ ہیں، ڈاکٹرز نے میڈیکل رپورٹس کی بنیاد پر لکھا ہے کہ وہ تین ہفتوں تک مزید چل پھر نہیں سکتے،
درخواست گزار اپنے گھر میں ہے اشتہاری نہیں۔اسلام آباد کی عدالت نے بھی میڈیکل گراؤنڈ پر حاضری سے استثنیٰ نہیں دیا، اسلام آباد کی عدالت نے درخواست ضمانت مسترد کر دی ہے، انسداد دہشتگری عدالت اسلام آباد میں دوبارہ درخواست ضمانت دائر کرنی ہے۔وکیل عمران خان نے موقف اپنایا کہ مرتضی بھٹو کیس میں بھی حفاظتی ضمانت ہوئی تھی۔جس پر عدالت نے کہا کہ کیا حفاظتی ضمانت ملک سے باہر ہونے پر بھی ہوجاتی ہے،
قانون بتائیں کس قانون کے تحت ضمانت دی جائے؟۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ میں قانون کا پابند ہوں، قانون سب کے لئے ایک جیسا ہے، حفاظتی ضمانت کے لئے ملزم کا پیش ہونا ضروری ہے، رعایت دے رہا ہوں ورنہ یہ پٹیشن خارج کردینی چاہیے۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ آپ انہیں اپنی گاڑی یا ایمبولینس میں لے آئیں۔جس پر وکیل نے کہا کہ وہ سابق وزیراعظم ہیں ان کی سیکورٹی کا مسئلہ ہے۔عدالت نے جواب دیا کہ عمران خان کو عدالت کے سامنے آنا ہو گا،
جس پر وکیل نے استدعا کی کہ زمان پارک سے یہاں تک کی حفاظتی ضمانت دے دیں۔عدالت کا کہنا تھا کہ آئی جی کوحکم کر دیتے ہیں کہ وہ انہیں اپنی حفاظت میں لے آئیں۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے مزید ریمارکس دیئے کہ عدالت رات آٹھ بجے تک بیٹھی ہے اگر حفاظتی ضمانت چاہیے تو درخواست گزار لیکر آئیں، رات دیر تک عدالتیں کھولنے پر آپ لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے،میں آپ کا پابند نہیں ہوں جو رات بارہ بجے تک انتظار کروں گا۔عدالت نے عمران خان کو 8بجے تک عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔