مریدکے(این این آئی)سیلاب کی وجہ سے سندھ میں چاول کی فصل تباہ ہونے اور فلور ملوں کی طرف سے چاول کا نکو آٹے میں مکس کرنے سے چاول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔چاول کی صنعت سے منسلک رائس ملرز چوہدری احسان ورک محمد ساجد مغل حاجی محمد انوار محمد عرفان علی خان اور دیگرز کا مشترکہ اجلاس ہوا
جس میں تشویش کا اظہار کیا گیا۔رائس پاکستان کے چیف ایگزیکٹو محمد ساجد مغل نے کہا کہ سندھ کی مونجی سپر دنیا میں سب سے زیادہ پسند کی جاتی ہے سیلاب کی تباہ کاریوں سے سندھ میں یہ فصل بری طرح متاثر ہوئی جس کی قیمت چھتیس سو روپے من سے چار ہزار روپے من تھی جو اب آٹھ ہزار روپے من سے اوپر ہے اسی طرح پنجاب کی سپر باسمتی سات ہزار روپے سے اوپر فروخت ہورہی ہے پولٹری فیڈز کی ترسیل رکنے کی وجہ سے اب چاول پولٹری فیڈز کے طور پر استعمال ہونا شروع ہوچکا ہے اسکے علاوہ چاول پروڈکٹ شیمپو بسکٹ فوڈ آئٹمز گلو کوز وغیرہ میں بھی استعمال ہورہا ہے چاول کا ادھواڑ پانچ ہزار روپے چاول نکو پنتیس سے پنتالیس سو روپے فی من ہوچکا ہے اور فلور ملز مالکان اب یہ نکو آٹے میں مکس کرکے فروخت کرکے اربوں روپے منافع کمارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ انٹر نیشنل مارکیٹ میں بھارتی چاول پاکستان کی نسبت تین سو ڈالر فی ٹن سستا فروخت ہورہا ہے حکومت نے اگر توجہ نہ دی تو چاول کی صنعت آنے والے دنوں میں زوال کا شکار ہوجائے گی اور پاکستان کی عوام چاول کے دانے کو ترس جائے گی۔انہوں نے چاول مہنگا ہونے کی ایک اور وجہ گندم کا اسٹاک کئے جانے کو بھی قرار دیا کہ ایک مخصوص سرمایہ کار گروہ ہے جس نے گندم کو زخیرہ کرکے آٹے کی قلت پیدا کرکے چاول کی ڈیمانڈ میں اضافہ پیدا کرکے نیا بحران پیدا کرکے رکھ دیا ہے۔