اسلام آباد (این این آئی)پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے ڈیم فنڈ کے حوالے سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو اجلاس میں پیش ہونے کی درخواست کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ سابق چیف جسٹس کو کمیٹی کیسامنے پیش ہونے سے کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نور عالم خان کی زیرصدارت ہوا،
جہاں ہے سیلاب کی صورت حال سمیت دیگر معاملات زیرغور آئے اور ساتھ ہی ڈائریکٹر جنرل آڈٹ خیبرپختونخوا کو فوری طور پر عہدے سے ہٹانے کی ہدایت کردی گئی۔اجلاس کے دوران کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ ڈی جی آڈٹ خیبرپختونخوا، پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا سربراہ تھا تو 20ویں گریڈ کے عہدے پر 19ویں گریڈ کا افسر کیسے تعینات کیا گیا، لہذا اس افسر کو فوری طور پر عہدے سے ہٹا کر واپس بلایا جائے۔پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی(پی این آر اے)کیلئے اسلام آباد میں مکان خریدنے میں بے ضابطگی کا انکشاف بھی ہوا اور بتایا گیا کہ چیئرمین پی این آر اے کے لیے سیکٹر جی الیون میں7 کروڑ 78 لاکھ روپے کا مکان خریدا گیا مگر مکان کی خریداری میں متعلقہ قوانین نظر انداز کیے گئے۔کمیٹی کے رکن برجیس طاہر نے سوال کیا کہ چیئرمین کیلئے مکان کیوں خریدا گیا، جب دیگر افسران کیلئے کرائے پر مکان لیا جاتا ہے تو پی این آرے کے لیے ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ یہ ملک ایک قانون کے تحت چلتا ہے۔اسی دوران چیئرمین پی این آر اے نے اجلاس کو بتایا کہ ایس پی ڈی، پی این آر اے اور فنانس پر مشتمل کمیٹی نے مکان خریدنے کی اجازت دی تھی تاہم نور عالم خان نے معاملے کی انکوائری کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کیسز میں وفاقی وزیر کے ساتھ ساتھ سیکریٹری، ایڈیشنل سیکرٹری اور جوائنٹ سیکریٹری کو بھی انکوائری میں شامل کیا جائے اور نور عالم خان نے کہا کہ ہر فائل ان بیوروکریٹس کی منظوری سے ہی آگے جاتی ہے۔پی اے سی نے پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی کو فنانشل رولز ایک ہفتے میں وضع کرنے کی ہدایت کردی۔
پی اے سی کو سیلاب اور ڈیموں کی صورت حال پر بریفنگ دی گئی جہاں شیخ روحیل اصغر نے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے بات کی مگر چیئرمین کمیٹی نے شیخ روحیل اصغر کو اس حوالے سے بات کرنے سے روک دیا۔نور عالم خان نے کہا کہ جو حساس معاملات ہیں ان پر بات نہ کریں تو بہتر ہو گا کیونکہ کالا باغ ڈیم پر خیبرپختونخوا اور سندھ کو اعتراض ہے، جس پر شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ بتائیں تو سہی اعتراض ہے کیا۔
اس موقع پر چیف انجینئر محکمہ آب پاشی بلوچستان نے پی اے سی میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ایک ہزار 20 چھوٹے اور ڈیلے ایکشن ڈیم ہیں تاہم سیلاب سے 41 ڈیم متاثر ہوگئے ہیں۔چیف انجینئر نے کہا کہ کئی متاثرہ ڈیموں میں اسپل ویز ڈیزائن کے مطابق نہیں بنائے گئے تھے اور اس مرتبہ بیشتر ڈیموں میں گنجائش سے دو سے تین گنا اضافی پانی آیا۔رکن کمیٹی شیخ روحیل اصغر نے پوچھا کہ دریا سے کم سے کم کتنے فاصلے پر تعمیرات کی اجازت ہوتی ہے،
سوات میں تمام وہ عمارتیں تباہ ہوئیں جو دریا کے کنارے بنائی گئی تھیں، جس پر نور عالم خان نے انہیں کہا کہ یہ صوبائی معاملہ ہے۔دوران اجلاس محکمہ آب پاشی خیبرپختونخوا نے اجلاس کو ڈیموں کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں 61 چھوٹے ڈیم ہیں جن میں سے 24 زیر تعمیر ہیں لیکن سیلاب سے کوئی ڈیم متاثر نہیں ہوا۔محکمہ آبپاشی سندھ نے بھی ڈیموں سے متعلق بریفنگ دی اور بتایا کہ سندھ میں 103 ڈیم ہیں، جن میں سے 58 جزوی طور پر متاثر ہوئے ہیں اور ایک ڈیم کو زیادہ نقصان پہنچا ہے۔
دوران اجلاس آڈٹ حکام کی جانب سے کمیٹی کو بریفنگ دی گئی کہ ڈیم فنڈ کی تفصیلات رجسٹرار سپریم کورٹ آفس نے فراہم نہیں کیں، جس پر رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔رجسٹرار سپریم کورٹ سے ڈیم فنڈ کی مکمل تفصیل طلب کر تے ہوئے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ رجسٹرار صاحب کو پی اے سی کے اختیارات کے بارے میں آگاہ کریں۔نور عالم خان نے کہا کہ ہم نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو طلب کیا تھا وہ کیوں نہیں آئے، جس پر کمیٹی کے سیکریٹری نے بتایا کہ ہم نے انہیں خط لکھ دیا تھا۔چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ ہم پہلے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے درخواست کریں گے کہ وہ اگلے اجلاس میں شرکت کریں، سابق چیف جسٹس کو کوئی استثنی حاصل نہیں ہے۔