لاہور(این این آئی) لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ لگتا ہے کسی کو عدالت کی مداخلت پسند نہیں ہے، عدالت کسی ایک کے لیے نہیں سب کے لیے ہے۔چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ نے تحریک انصاف کے کارکنوں کو رہا نہ کرنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔دورانِ سماعت عدالت نے حکم نہ ماننے پر ڈپٹی کمشنر لاہور کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ
یک جنبش قلم سے سب کو پکڑ لیا گیا، آپ کے خلاف کیوں نہ توہین عدالت پر کارروائی کی جائے۔چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ نے کہا کہ میرے پاس کسی کی عزت نہیں، اگر وہ عدالت کا فیصلہ نہیں مانتا، آدھے گھنٹے میں جواب دیں، پھر سماعت کریں گے۔چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ لوگوں کو کل کیوں رہا نہیں کیا گیا؟ رات سے مجھے پتہ چل گیا تھا کہ عدالت کے حکم پر عمل نہیں ہو رہا۔جس پر وکیل پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ عدالت کے حکم پر کل سے ہی رہائی شروع کر دی تھی، آئی جی جیل خانہ جات نے بتایا کہ پنجاب کی کسی جیل میں اب ان افراد میں سے کوئی قید نہیں۔عدالت نے مکالمہ کرتے ہوئے مزید پوچھا کہ ڈپٹی کمشنر نے خود کہا ہے کہ آج صبح چھوڑا ہے۔جس پر وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر کی زبان لڑکھڑا گئی تھی، ڈپٹی کمشنر گھبرا گئے تھے، اب تک پورے پنجاب سے سب لوگ رہا ہوگئے ہیں۔عدالت کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ لگتا ہے لوگوں کو عدالت کی مداخلت پسند نہیں ہے، جس کے حق میں فیصلہ آئے وہ تعریف کرتا دوسرا خلاف بولتا ہے۔عدالت میں وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ہم آپ کو پیغام پہنچاتے رہے کہ فیصلے پر عمل نہیں ہو رہا، آپ نے جواب دیا کہ فیصلے پر عمل ہوگا۔چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ جو کچھ ہوا مجھے افسوس رہے گا، عدالت کسی ایک کے لیے نہیں سب کے لیے ہے۔
وکیل پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر نے غیر مشروط معافی نامہ لکھ کر خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔بعد ازاں ڈپٹی کمشنر کی جانب سے تحریری جواب عدالت میں جمع کرا دیا گیا۔دورانِ سماعت چیف سیکرٹری کا کہنا تھا ہم عدالت کا حکم کیوں نہیں مانیں گے۔چیف جسٹس نے معافی نامہ منظور کرتے ہوئے کہا کہ چیف سیکرٹری صاحب اپنے سیکرٹریز کو پیغام دیں کہ عملدرآمد میں تاخیر نہ کیا کریں، امید ہے مستقبل میں ایسا نہیں ہو گا۔بعد ازاں عدالت کی جانب سے توہین عدالت پر اظہار وجوہ کا نوٹس بھی ختم کر دیا گیا۔