اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سوئٹزرلینڈ کے ایک بینک سے لیک ہونے والی معلومات میں 128؍ ممالک سے تعلق رکھنے والے بینک کے مالدار کھاتہ داروں (کلائنٹس) کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔یہ افراد کاروباری شخصیات بھی ہیں تو سیاسی وابستگیاں رکھنے والے بھی ہیں، ایسے میں جن افراد کے حوالے سے تحقیق کی گئی ہے ان میں سے کچھ افراد پر مختلف جرائم کی پاداش میں فرد جرم بھی
عائد ہو چکی ہے۔روزنامہ جنگ میں عمر چیمہ کی خبر کے مطابق لیک ہونے والی تفصیلات میں 18؍ ہزار بینک اکائونٹس اور 30؍ ہزار کھاتہ داروں کی تفصیلات شامل ہیں جن کے دنیا کے سب سے بڑے نجی بینک ’’کریڈٹ سوئیز‘‘ میں 100؍ ارب ڈالرز (17؍ کھرب 535؍ ارب پاکستانی روپے) تک کے اثاثے موجود ہیں۔اس لیک کو ’’سوئس سیکریٹس‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی سوئس بینک کا اتنا ڈیٹا لیک ہو کر میڈیا تک پہنچا ہے۔راز افشاء کرنے والے شخص (Whistleblower) نے جرمن اخبار سوُدوچے زائتونگ (Süddeutsche Zeitung) کو یہ ڈیٹا فراہم کیا ہے جس کے بعد اخبار نے دنیا میں تحقیقاتی صحافت کی سب سے بڑی تنظیم آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ کے ساتھ مل کر اس پر کام کیا۔اس تنظیم کی تمام براعظموں میں موجودگی ہے۔ ایک بیان میں راز افشاء کرنے والے شخص نے سوئس بینکوں کے رازداری کے قوانین کو غیر اخلاقی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس چوروں کے ساتھ ملی بھگت میں سوئس بینک اپنا شرم ناک کردار مالی رازداری کی انہی شقوں میں چھپاتے ہیں۔
صحافیوں کی جانب سے بھیجے گئے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کریڈٹ سوئیز نے الزامات کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ صحافیوں کو جو بھی معلومات ملی ہیں وہ ’’سیاق و سباق سے ہٹ کر حاصل کی گئی مخصوص معلومات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایسی معلومات کے نتیجے میں بینک کے کاروباری رویے کی متنازع شبیہہ سامنے آئی ہے۔‘‘39؍ ممالک سے تعلق رکھنے والے 48؍ میڈیا ہائوسز
کے 160؍ سے زائد صحافیوں نے مل کر کریڈٹ سوئیز سے لیک ہونے والی معلومات کا جائزہ لیا ہے۔ یہ بینک سوئٹزرلینڈ کا دوسرا سب سے بڑا بینک ہے۔ ڈیٹا میں کئی پاکستانیوں کے نام بھی سامنے آئی ہیں۔ 1400؍ پاکستانیوں نے 600؍ کے قریب اکائونٹس ہیں جو کریڈٹ سوئیز بینک میں موجود ہیں۔ڈیٹا میں ایسے اکائونٹس کا پتہ چلا ہے جو اب بند ہیں لیکن ماضی میں فعال
رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ان کھاتہ داروں کی تفصیلات سامنے لائیں گی، یہ اکائونٹس متنوع نوعیت کے ہیں۔ ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو ماضی میں یا حال میں نیب کی تحقیقات کا سامنا کر چکے یا کر رہے ہیں۔ایسے کیسز بھی ہیں جن میں ایسے لوگ جن کیخلاف نیب کی تحقیقات جاری تھیں اور انہوں نے اسی دوران بینک میں اکائونٹس کھولے اور نیب کو بھنک تک نہ پڑی۔ کئی
ایسی سیاسی شخصیات بھی ہیں جنہوں نے اُس وقت سوئس بینکوں میں اکائونٹس کھولے جب وہ عہدوں پر تھے اور انہوں نے ان اثاثہ جات کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے گوشواروں میں ذکر تک نہیں کیا۔ایسی ہی ایک سیاسی شخصیت کے سوئس اکائونٹ میں اُس وقت بھاری رقوم جمع ہوئیں جب وہ سیاسی کیریئر کے عروج پر تھے۔ پاکستان میں اہم ترین سیاسی عہدے
پر موجود ایک شخص کا بینک میں اکائونٹ ہے، اور یہ بینک کا امیر ترین کلائنٹ ہے۔ ڈیٹا دیکھ کر یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کچھ کلائنٹس کیخلاف پاکستان میں تحقیقات جاری ہیں۔ان تحقیقات میں تحقیقات کرنے والوں کو اثاثہ جات کے حوالے سے غلط معلومات فراہم کی گئیں۔ جس وقت کئی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جعلی بینک اکائونٹس کا معاملہ صرف پاکستان میں ہے تو یہاں یہ بات
بھی سامنے آئی ہے کہ کئی ایسے پاکستانی بھی ہیں جنہوں نے سوئس بینک میں اپنے پراکسیز کے نام پر اکائونٹس کھلوائے ہیں۔بینک میں اوسطاً ہر پاکستانی کے اکائونٹ میں 4.42؍ ملین سوئس فرانک (84؍ کروڑ 13؍ لاکھ 29؍ ہزار سے زائد پاکستانی روپے) موجود ہیں جبکہ لیک ہونے والے ڈیٹا میں تمام کھاتہ داروں کے اکائونٹس میں اوسطاً 7.5؍ ملین سوئس فرانک (ایک ارب 42؍ کروڑ 75؍ لاکھ 95؍ ہزار سے زائد پاکستانی روپے) موجود ہیں۔
ڈیٹا میں جن 200؍ کلائنٹس کا نام سامنے آیا ہے جن اکائونٹس میں 100؍ ملین سوئس فرانک (19؍ ارب 3؍ کروڑ 46؍ لاکھ 10 ؍ ہزار سے زائد پاکستانی روپے) موجود ہیں جبکہ درجن بھر اکائونٹس ایسے ہیں جن کے اکائونٹس میں اربوں مالیت کے اثاثہ جات ہیں۔بینک میں کچھ اکائونٹس ایسے بھی ہیں جو 1940ء کی دہائی کے ہیں، دو تہائی اکائونٹس 2000ء اور اس کے بعد کھولے گئے
اور ان اکائونٹس میں سے کئی ایسے ہیں جو گزشتہ دہائی تک فعال رہے۔دوسری جانب امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ سوئس بینکوں کے کلائنٹ روسٹرز دنیا کے سب سے زیادہ محفوظ رازوں میں سے ہیں، جو دنیا کے چند امیر ترین لوگوں کی شناخت کی حفاظت کرتے ہیں اور اس بات کا اشارے دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنی دولت کیسے جمع کی۔ڈیٹا ان اکاؤنٹس کا احاطہ کرتا
ہے جو1940 کی دہائی سے لے کر 2010ء کی دہائی تک کھلے تھے لیکن بینک کے موجودہ کاموں کا احاطہ نہیں کرتے۔ کریڈٹ سوئس اکاؤنٹس میں کروڑوں ڈالر کی رقم رکھنے والے افراد میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم اور مصر کے سابق طاقتور صدر حسنی مبارک کے دو بیٹے بھی شامل ہیں۔سوئٹزرلینڈ کی اینٹی منی لانڈرنگ ایجنسی کے سابق سربراہ ڈینیل تھیلیسکلاف نے کہا کہ سوئس بینکوں کو مجرمانہ سرگرمیوں سے منسلک رقم لینے پر
طویل عرصے سے قانونی پابندیوں کا سامنا ہے۔ لیکن انہوں نے کہاکہ قانون کو عام طور پر نافذ نہیں کیا گیا ہے۔یہ لیک 2016ء میں نام نہاد پاناما پیپرز، 2017 میں پیراڈائز پیپرز اور گزشتہ سال پنڈورا پیپرز کے بعد ہوئی ہے۔ نئے انکشافات سے سوئس بینکنگ انڈسٹری اور خاص طور پر کریڈٹ سوئس کی قانونی اور سیاسی جانچ کو تیز کرنے کا امکان ہے۔ بینک پہلے ہی اپنے دو اعلیٰ عہدیداروں کی اچانک بے دخلی سے دوچار ہے۔ بینکوں کی
رازداری کے قوانین کے ساتھ، سوئٹزرلینڈ طویل عرصے سے ان لوگوں کے لیے ایک پناہ گاہ بنا ہوا ہے جو پیسہ چھپانے کے خواہاں ہیں۔پچھلی دہائی میں، اس نے ملک کے سب سے بڑے بینکوں خاص طور پر اس کی دو کمپنیاں، کریڈٹ سوئس اور یو بی ایس کو امریکا اور دیگر جگہوں پر حکام کے لیے ایک ہدف بنا دیا ہے جو ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ اور دیگر جرائم کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے
کی کوشش کر رہے ہیں۔2014ء میں کریڈٹ سوئس نے امریکیوں کو جھوٹے ٹیکس ریٹرن فائل کرنے میں مدد کرنے کی سازش کرنے کے جرم کا اعتراف کیا اور جرمانے، جرمانے اور کل 2.6 ؍ ارب ڈالر کی واپسی پر رضامندی ظاہر کی۔ بینک نے زمبابوے کے ایک تاجر کے اکاؤنٹس بھی کھلے رکھے تھے جنہیں امریکی اور یورپی حکام نے ملک کے دیرینہ صدر رابرٹ موگابے کی حکومت سے تعلقات کی
وجہ سے منظور کیا تھا۔پابندیاں لگنے کے بعد کئی ماہ تک اکاؤنٹس کھلے رہے۔ افشا ہونے والی بینک کی معلومات میں مشرق وسطیٰ اور اس سے باہر کے سرکاری اہلکاروں سے منسلک بہت سے اکاؤنٹس شامل تھے۔ اعداد و شمار اس بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں کہ کس طرح عوامی عہدیداروں اور ان کے رشتہ داروں نے بدعنوانی سے بھرے خطہ میں وسیع دولت جمع کی۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکا کے ساتھ تعاون کرنے والے کئی ممالک کے سینئر انٹیلی جنس حکام اور ان کی اولاد نے بھی کریڈٹ سوئس میں رقم رکھی تھی۔