اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)انوکھے منظر نامے کا نتیجہ؛ اپوزیشن کے حوصلے بلند، قومی افق پر آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے 39 ماہ میں پہلی بار پاکستان تحریک انصاف کے حوصلے پست ۔روزنامہ جنگ میں طارق بٹ لکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد 39 ماہ میں پہلی بار اپوزیشن جماعتوں کا حوصلہ بلند ہے اور حکمران اتحاد کی سینئر شراکت دار پاکستان تحریک
انصاف (پی ٹی آئی) قومی افق پر آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے خود کو پست محسوس کر رہی ہے۔اپوزیشن جماعتیں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کا ماننا ہے کہ انہیں کچھ سانس لینے کی جگہ ملی ہے جو کہ ان کے لیے نہ صرف 2018 کے عام انتخابات کے بعد بلکہ اس انتخابی مشق سے چند سال قبل بھی ایک منفرد واقعہ ہے۔ان کا خیال ہے کہ اب ان کے لیے جو جگہ دستیاب ہے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پھیلے گی اور پی ٹی آئی کے لیے سکڑے گی۔ پی ایم ایل این کے کئی سینئر رہنماؤں کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) احتسابی چارٹ پر نمایاں ہے جس کے کچھ اعلیٰ ترین لیڈرز نے اس عمل کا مزہ چکھ لیا ہے۔تین سال سے تجاوز کر جانے والا یہ کٹھن دور دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کے لیے انتہائی سخت رہا ہے۔ وہ اب سمجھ رہے ہیں کہ ان کے اچھے دن آنے والے ہیں۔ اپوزیشن کے پاس کئی اتحادی ہیں۔اگرچہ پی پی پی، جسے کچھ عرصہ قبل سینیٹ انتخابات کے بارے میں اپنے پختہ عزم سے مکرنے کی وجہ سے پی ڈی ایم سے نکلنا پڑا تھا، وہ کثیر الجماعتی اتحاد پر
چبھتے ہوئے فقروں کا تبادلہ کرتی رہی ہے، جہاں تک حکومت کے خلاف مزاحمت کا تعلق ہے تو وہ اب کم از کم پارلیمنٹ کے اندر گروہ بندی کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کی قیادت والی حکومت کے پاس بھی پی ایم ایل کیو، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس جیسے اتحادی ہیں لیکن وہ سینئر پارٹنر کے لیے قابل اعتماد نہیں ہیں۔یہ بات
پی ٹی آئی سمیت سب جانتے ہیں کہ یہ چھوٹی پارٹیاں آزاد ایجنٹ نہیں ہیں۔ وہ اس افسردگی میں شریک نہیں ہیں جو پی ٹی آئی کو پہنچی ہے۔فی الحال اگلے عام انتخابات میں اس کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں کوئی اندازہ لگانا قبل از وقت ہے۔ تاہم وہ 2018 سے پی ٹی آئی کے ساتھ دفتر کے فائدے بانٹ رہے ہیں جب انہوں نے موجودہ سیٹ اپ کو اکٹھا کرنے کے لیے اس
کے ساتھ تعاون کیا تھا۔پی ایم ایل کیو، ایم کیو ایم پی اور جی ڈی اے صرف حکومت بنانے کے لیے پی ٹی آئی کے اتحادی بنے۔ پالیسی کے لحاظ سے پی ٹی آئی نے ہمیشہ سولو فلائٹ کو ترجیح دی ہے۔ لیکن حکومت سازی کے لیے درکار ووٹوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے انہیں ساتھ لے کر جانا پڑا۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی ان کو خاص طور پر پی ایم ایل کیو اور ایم کیو ایم پی پر تنقید
کرتی تھی۔اس کے برعکس پی ڈی ایم کے کم از کم دو حلقے مسلم لیگ نون اور جمعیت علمائے اسلام فضل کئی سالوں سے شراکت دار تھے اور وقت کی کسوٹی پر کھڑے رہے۔ حالانکہ مختلف ادوار میں پیپلز پارٹی سے ان کے تعلقات اچھے یا برے رہے، وہ ماضی میں مختلف مسائل پر ہاتھ ملانے کے لیے ورکنگ ریلیشن شپ برقرار رکھے ہوئے تھے۔پی ڈی ایم اور پی پی پی کے درمیان قریبی تعاون
اور ہم آہنگی کی وجہ سے ہی ان کی مشترکہ کوششوں سے قومی اسمبلی میں ایک ہی دن میں دو بار حکومت کو شکست دینے میں کامیابی ملی۔اگرچہ مریم نواز اور بلاول کا شاید کافی عرصے سے مثالی تعلق نہیں ہے، پی پی پی کے سربراہ کے پی ایم ایل این کے صدر شہباز شریف کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔پی ایم ایل این کے ممتاز رہنما اور سابق اسپیکر سردار ایاز صادق نے بتایا کہ ہم نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے لیے بیرون ملک سے تمام اراکین پارلیمنٹ کو واپس بلایا تھا، جسے بعد میں حکومت نے اپوزیشن کے ہاتھوں ایک اور شکست کے خوف سے ملتوی کر دیا تھا، تاکہ قانون سازی کی کارروائی پر ووٹنگ کے دوران ہمارے تمام نمبر موجود ہوں۔