اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی دارالحکومت میں واقعتاً تبدیلی آ رہی ہے بلکہ خاصی حد تک آ چکی ہے، چند ہفتوں پہلے لوگ دھوپ کی تمازت سے محفوظ ہوتے دکھائی دیتے تھے اور ان دنوں دھوپ سے محظوظ ہو رہے ہیں لیکن عموماً اسلام آباد کے موسم میں تبدیلی کو ملک کی سیاسی صورتحال کے معنوں اور مفاہیم میں استعمال کیا جاتا ہے اور اگر اس مرتبہ بھی ایسا ہی
سمجھا جا رہا ہے تو بادی النظر میں یہ اتنا غلط بھی نہیں ہے۔اسلام آباد میں سفارتی کمیونٹی نے اب اپنے غیر اعلانیہ اور سیاستدانوں سے اعلانیہ رابطے فی الوقت روک دیئے ہیں، تازہ ترین اطلاعات اور معلومات کے ذرائع سے ان کی ملاقاتیں انتہائی محدود ہوگئی ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے بارے میں حالات اور آنے والے واقعات کے بارے میں اپنی حکومتوں کو آگاہ کرنے کا کام جو انکے سفارتی منصب کے فرائض کا ایک حصہ ہوتا ہے مکمل کرلیا ہے۔کچھ دن پہلے تک جو حکومتی وزراء یہ دعویٰ بڑے یقین اور اعتماد سے کررہے تھے کہ تحریک انصاف کی حکومت آئندہ پانچ سال میں وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں حکمرانی کرے گی، اب ان کے اس بیان میں بھی اعتماد کا فقدان محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن جو دل چاہے کرے لیکن حکومت اپنے پانچ سال پورے کریگی۔روزنامہ جنگ میں فاروق اقدس کی خبر کے مطابق گزشتہ دنوں کور کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر اپنے رفقا اور حکومتی ارکان کو ’’نہ گھبرانے‘‘کا مشورہ دیا ہے، شاید ان کو بھی اندازہ ہورہا ہے کہ ان کے
حکومتی رفقا ایک بار پھر گھبراہٹ کا شکار ہیں اس لئے انہوں نے زور دیتے ہوئے اس ضمن میں کئی ایسی مثالیں بھی پیش کی اور حوالے بھی دیئے جن کا ملک کی صورتحال سیاست اور امور مملکت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔پھر الیکٹرونک میڈیا پر وہ اینکرز تجزیہ کار اور مبصرین جن کے بارے میں انکے خیالات اور گفتگو سے یہ رائے قائم کی جاتی تھی کہ وہ ہرصورت موجودہ حکومت کے
حامی ہیں اور حکومت کی کارکردگی کی بہتری کیلئے اسے وقت دینے کے جواز پیش کرتے تھے اب بتدریج ان کی گفتگو میں بھی مایوسی، دل شکنی اور تاسف محسوس کیا جا سکتا ہے۔اب وہ حکومت کی سخت لفظوں میں مخالفت تو نہیں کر رہے لیکن حمایت میں بھی برجستگی کی جگہ تذبذب یقین اور دعوئوں کی بجائے حکومت مخالفین سوچ رکھنے والے شرکا کے ساتھ ان کا مصالحانہ
طرز عمل واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔دوسری طرف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی اچانک ہی فعالیت کی سرگرمیوں نے بھی ’’کچھ ہونے والا ہے‘‘کے تاثر کو تقویت دی ہے، ماضی میں عمران خان کے ایک صحافی اینکر دوست جنہوں نے بعد میں ان کے معتمد خاص اور غیر سرکاری مشیر کی حیثیت بھی حاصل کرلی تھی، انہوں نے تو گزشتہ روز اپنے پروگرام میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ
’’اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو سپورٹ کرتے کرتے تھک چکی ہے۔فی الوقت تحریک انصاف تنہا ہوچکی ہے اسی لئے نواز شریف آنے والی صورتحال کے پیش نظر خود وزیراعظم بننے کے خواہشمند بلکہ پرامید ہوگئے ہیں۔اسلام آباد میں وہ حلقے راولپنڈی سے جن کا تعلق انکا حوالہ ہے وہ ڈرائینگ رومز کی نشستوں کے بعد اب اسلام آباد کے ان اوپن ایئر ریستورانوں میں برقی ہیٹروں کے سامنے بلا جھجھک حکومت کے جانے کی شیڈول کی باتیں دلیل اور منطق سے کر رہے ہیں جہاں وزراء ارکان اسمبلی اور دیگر لوگوں کی نشستیں ہوتی ہیں۔