اسلام آباد(آن لائن)پارلیمنٹ کی پبلک اکاونٹس کمیٹی میں قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں نیب کی جانب سے قومی خزانے میں رقم جمع نہ کرانے کا انکشاف ہوا ہے۔پی اے سی کا اجلاس چیرمین رانا تنویر حسین کی زیر صدارت منعقد ہوا۔اجلاس میں سینیٹر شیری رحمان نے نیب کی ریکور کردہ رقم قومی خزانے میں جمع نہ ہونے کا معاملہ اٹھا دیا۔ شری رحمان کا کہناتھا
نیب کی طرف سے ریکور ہونے والے پیسے کہاں جارہے ہیں۔821 ارب میں سے وزارت خزانہ کے پاس ساڑھے 6 ارب روپے آئے۔نیب فائنانس ٹریل سے بالاتر لگتا ہے۔ چیئرمین پی اے سی رانا تنویر حسین نے کہا نیب کرپشن کا پیسہ ریکور نہیں کر سکا۔پاکستان کے پیسوں پر جو ڈاکہ ڈالا گیا وہ واپس نہیں آئے۔کرپشن کے پیسوں کی ریکوری کی شرح بہت کم ہے، چیئرمین پی اے سی نے کہانیب نے ہاوسنگ سوسائٹیوں، ڈبل شاہ وغیرہ سے پیسے ریکور کیئے۔وزارت خزانہ کا کہناتھا نیب کا ہدف کرپشن کی نظر ہونے والی رقم کی ریکوری ہونی چاہئے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے کمیٹی کو بتایا نیب کا لیگل فریم ورک ہے جو پارلیمان نے منظور کیا ہوا ہے، اس کے تحت شاید وہ کچھ فنڈ رکھتے ہیں۔نیب حکام نے کہا پبلک کے پیسہ میں سے نیب ایک روپیہ نہیں لیتا۔رکن کمیٹی نور عالم خان نے کہا نیب والے ریکور کردہ رقم میں سے 20 فیصد حصہ رکھ لیتے ہیں۔نیب کا جب آڈٹ کا کیا جاتا ہے تو سیاست دان ہی ان کی پشت پناہی کرتے ہیں، ان سے سب ڈرتے ہیں، میں نے اجلاس بلایا تو اجلاس ہی منسوخ کر دیا جاتا ہے۔خواجہ آصف نے کہا برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے جو رقم ریکور کی تھی وہ کہاں ہے۔یہ چھوٹی رقم نہیں بلکہ 18 کروڑ پاونڈز ہیں۔ اس موقع پر پی اے سی نے نیب سے ایک سال کی ریکوری کا ریکارڈ طلب کر لیا۔حکومت سے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی ریکور کردہ رقم کا ریکارڈبھی طلب کرلیا گیا ہے۔
چیرمین کمیٹی رانا تنویر حسین نے کہا اس حوالے سے ایک ہفتے کے اندر معلومات فراہم کی جائیں۔ اجلاس میں وزارت ریلوے کی آڈٹ رپورٹ 2019-20 کا جائزہ لیا گیا۔ریلوے میں 1 ارب ساڑھے سات کروڑ کے فراڈ کے کیسز میں عدم ریکوری کا انکشاف ہوا ہے۔ آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا فراڈ اور سنگین بے ضابطگیوں کے 402 کیسز طویل عرصے سے زیر التواء ہیں۔فنانشل ایڈوائزر اور چیف اکاونٹس آفیسر ریونیو لاہور کا آڈٹ کیا گیا۔و زارت ریلوے نے کہا اب تک 1 کروڑ 29 لاکھ کی ریکوری ہو چکی ہے۔پی اے سی نے باقی رقم جلد ریکور کرنے کی ہدایت کر دی۔