اسلام آباد(آن لائن)اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کلبھوشن یادیو کو وکیل فراہمی کی وزارت قانون کی درخواست پر سماعت کی اٹارنی جنرل خالد جاوید خان عدالت کے سامنے پیش ہوئے عدالتی معاون ایڈوکیٹ حامد خان بھی عدالت کے سامنے موجود تھے دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ
بھارت آکر ہمیں اپنے خدشات بتا دے جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بھارت چاہتا ہے قونصلر رسائی کے نام پر ان کے نمائندے اکیلے کلبھوشن سے ملیں بھارتی نمائندوں کو کلبھوشن کیساتھ اکیلے کمرے میں نہیں چھوڑ سکتے ہمیں کچھ پتہ نہیں وہ اکیلے ملکر کلبھوشن کیساتھ کیا کر دیں وہ اکیلے میں اسے سے محض ہاتھ ملا کر کچھ بھی کر سکتے ہیں کلبھوشن یادیو ایک تربیت یافتہ جاسوس ہے۔ کلبھوشن یادیو اب بھی بھارتی حکومت کے اشارے سمجھ رہا ہے ہو سکتا ہے کلبھوشن کو پاکستان بھیجتے وقت اس صورتحال کی تربیت دی گئی ہو کلبھوشن کہہ رہا ہے بھارتی حکومت وکیل نہیں کر رہی وہ بھی نہیں کر رہابھارت کی طرف سے ہمارے پیغام کا کوئی جواب نہیں آیاجسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عالمی عدالت کے فیصلے پر تو عمل ہونا ہی ہیعالمی عدالت کے فیصلے پر عمل ایک موثر کارروائی سے ہی ہو سکتا ہیہم نے لیکن ویانا کنونشن کیمطابق ہی آگے بڑھنا ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عالمی عدالت کے فیصلے کا مقصد تھا کہ کلبھوشن کی سزا کیخلاف فیصلے پر کہیں اپیل سنی جائے عدالت خود وکیل فراہم کر کے وہ اپیل سن سکتی ہے جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عدالت خود کیسے سنے کیا سو موٹو لے لیں ہم؟کسی نہ کسی کو تو ہمارے سامنے اپیل دائر کرنا ہو گی تب ہی سنیں گے بینچ کے رکن جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ کلبھوشن کو کارروائی کا پتہ ہے بھارت کو بھی پتہ ہیبھارت جب اپیل میں خود آ ہی نہیں رہا تو ہم کیسے سنیں؟جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پانچ مئی کواس عدالت نے تفصیلی آرڈر پاس کیا تھا کہ ایک اور کوشش کی جائے عدالت نے کہا تھا کہ بھارت کو کلبھوشن کے لیے وکیل کرنے کی کوشش کی جائے بھارت کو عدالت کے آرڈر کے مطابق یہ پیغام پہنچایا گیا لیکن ابھی تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا اس موقع پر عدالت نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ہم نے عمل کرانا ہے لیکن بھارت اس میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے عدالت کو ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہیے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسی صورت حال میں وفاقی حکومت نے کو درخواست دی تھی کہ کلبھوشن کے لیے وکیل مقرر کیا جائے یہ عدالت کلبھوشن کیلئے وکیل مقرر کرے وہ اپیل دائر کرے گاحکومت پاکستان اپنی طرف نہیں کر سکتی بلکہ یہ عدالت کر سکتی ہے جس پر جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ کس قانون کے تحت ہم یہ سب کریں؟یہاں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بھارت نے یہ صاف نہیں کہا وہ کارروائی میں شامل نہیں ہو گا بھارت نے کچھ وجوہات پر کارروائی میں شامل نہ ہونے کا کہابھارت کو پاکستان میں کارروائی کے فئیر نہ ہونے کا اعتراض تھا چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کیس میں کلبھوشن یادیو کی زندگی کا سوال ہے کلبھوشن بھارت کا شہری ہے اس لئے ہم نے بھارت کو ہر آپشن دیایہاں تک کہا بھارت کے جو خدشات ہیں وہ آکر ہمیں بتا دییہ شاید ہمارے لئے مناسب نہیں ہو گا کہ وکیل خود فراہم کریں ہم اب بھی توقع کرتے ہیں بھارت کلبھوشن کیس میں آگے آئے گا عدالت نے بھارت کو وکیل فراہم کرنے کا ایک اور موقع دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی