کراچی(این این آئی)معروف ڈرامہ و مزاح نگار اور مصنف انور مقصود نے کہاہے کہ کراچی کی آبادی تین کروڑ ہے، اب اگر مردم شماری ہو تو مردوں کے ساتھ خواتین کی تعداد کو بھی شمار کریں کیونکہ حکومت مردم کو صرف مرد سمجھتی ہے۔ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے ایام ہجرت اور مہاجر ثقافت کے حوالے سے دوسرے روز آرٹس کونسل میں قومی زبان اردو کی اہمیت و افادیت
اور مہاجر ثقافت کے حوالے مکالمے کا انعقاد کیا گیا۔مکالمے میں ایم کیو ایم قیادت کے علاوہ وفاقی وزیر اسد عمر ، سابق چئیرمین ایف بی آر شبر زیدی ، مزاح نگار انور مقصود سمیت دیگر شخصیات نے شرکت کی جبکہ نوجوان بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔انور مقصود نے مکالمے میں اپنے منفرد انداز سے گفتگو کی، انہوں نے اپنے برابر میں بیٹھے وفاقی وزیر اسد عمر کو مخاطب کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ آئندہ مردم شماری میں مردوں کے ساتھ خواتین کو بھی شمار کریں، مردم شماری کا مطلب صرف مرد نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ اس ملک کے لیے سب نے کام کیا، اردو ویسے تو ہماری قومی زبان ہے مگر حالات ایسے بنائے جارہے ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ ماسٹرز تک سندھی ضروری ہوجائے گی، ہمارے لیے سب زبانیں قابل احترام ہیں مگر اردو محبتوں کی بادشاہ زبان ہے ، اسکے اگے کوئی بھی دیوار کھڑی کرے گا وہ اسے توڑ کر باہر نکل جائے گی۔انہوں نے کہا کہ یہ شہر ایک ماں ہے، جس نے بہت کچھ دیا مگر اب حالات بگڑے ہوئے محسوس ہورہے ہیں، ہوا پانی پر سب کا حق ہے اور اسکو کوئی نہیں چھین سکتا مگر تین کروڑ آبادی سے پانی چھین لیا گیا ہے۔انور مقصود نے کہا کہ اسد عمر ساتھ بیٹھے ہیں، وہ سن لین کہ شہر کی آبادی تین کروڑ ہے، کرونا میں تو آبادی اور بھی بڑھ گئی ہے، لوگ اب کمروں سے باہر نہیں نکلتے، مجھے امید ہے اچھا وقت دور نہیں، بس جلد کراچی کا اچھا وقت آنے والا ہے۔
وفاقی وزیر اسد عمر نے اپنے گفتگو کے آغاز پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دکن، دہلی، یوپی کا ذکر کیا، میری بیگم جو یہاں موجود ہیں ان کا تعلق بہار سے ہے، وہاں کا ذکر کسی نے نہیں کیا۔ اسد عمر نے کہا کہ میں اور امین الحق مردم شماری پر کام کررہے ہیں ، انور مقصود صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ مردم شماری میں عورتوں کو
بھی گنا جائے گا، میرے والد پاک فوج میں تھے ، انھوں نے قائد اعظم کے ساتھ بھی ڈیوٹی کی، میری والدہ ، بھائی بہنیں ہجرت کرکے آئے۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے کہا کہ ہجرت کرنے سے ویسے تو بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچا تھا، 1947 سے پاکستان کو بھر پور موقع ملا کہ ترقی کرسکے لیکن کوٹہ سسٹم کے
بعد سے نہ کرسکے، جب میرٹ کا سسٹم ختم ہوا تو کراچی کے بہترین دماغ والوں نے امریکا ہجرت کرلی، مجھے لگتا ہے، اب دیگر زبانوں سے زیادہ انگریزی زبان اردو پر ہاوی ہوگئی ہے، آج بھی چیزیں کو باہر بھیجنے میں کراچی پچاس فیصد حصہ ڈالتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی کے علاقے لیاقت آباد کی مارکیٹ والے پورے لاہور سے
زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس کے باوجود بھی شہر کو نظر انداز کیا جاتا ہے، جو افسوسناک بات ہے۔ڈاکٹر عالیہ امام نے مکالمے سے خطاب میں کہا کہ اردو محبوبہ ہے اور محبوبہ سے جان نہیں چھڑائی جاسکتی، جب زیبر عمر یہاں گورنر سندھ تھے میں نے ان سے کہا کہ اردو زبان کی ترویج کے لیے آپ کوئی اقدامات کیوں نہیں کرتے، اب
تو سپریم کورٹ کا اردو کو باقاعدہ سرکاری زبان کے حوالے سے حکم بھی آگیا ہے، زبیر عمر نے بڑا سوچ کر مجھے جواب دیا ڈاکٹر صاحبہ اردو کے لیے سپریم کورٹ کا حکم نامہ بھی انگریزی میں آیا ہے۔مسلم لیگ ن کے رہنما مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پاکستان میں دس بڑے ایکسپوٹر میں سے سات مہاجر ہیں، افسوس ہے مہاجروں کو
اپنی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے، کراچی کے ساتھ صرف مسائل ہیں لیکن اسکا حل نہیں نکالتے، شہروں کو بااختیار نہیں کیا جاتا ، پاکستان میں قوم پرست ہیں، یہ کہنے میں مجھے کوئی قباحت نہیں ہے، مجھے فخر ہے کہ میں مہاجر اور میمن ہوں۔مفتاح اسماعیل نے کہا کہ یہ بات سچ ہے کہ سندھ حکومت صوبے میں اردو بولنے والوں کو نوکریاں
نہیں دیتی، کراچی کے راستے خراب ہیں، میری بھی گاڑی برسات میں خراب ہوئی ، مجھے معلوم ہے کہ کراچی میں پینے کا پانی دستیاب نہیں، ان سارے مسائل کے باوجود بھی شہر ملک کو پال رہا ہے۔لیگی رہنما نے کہا کہ ہم نے قائد اعظم کا خواب پورا نہ کیا، سات کڑور لوگ غربت کی سطح سے نیچے ہیں، چالیس فیصد لوگوں کو کھانا
میسر نہیں، ہم نے پاکستان کا مقصد پورا نہیں کیا، ہم مل کر مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینئر خالد مقبول صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تہذیب برصغیر کی قدیم ترین تہذیب ہے، پاکستان اسلام کے نام پر بننے والا ملک ہے، ہم نے یہاں بسنے والوں کو اپنا تعارف کرایا، ایام ہجرت منانے کا مقصد دوبارہ سے اپنی ثقافت اور پہچان کو دنیا کے سامنے لانا ہے۔