راولپنڈی (آن لائن) ملک کی سیاسی قیادت نے افغانستان میں امن و استحکام،داخلی سلامتی اور پاکستان کے بنیادی سٹرٹیجک مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے حوالے سے افواج پاکستان کی صلاحیتوں،پالیسیوں اور اقدامات پر مکمل اطمینان کااظہار کیا ہے جبکہ عسکری قیادت نے واضح کیا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کا کوئی بھی پسندیدہ نہیں،ہم وہاں افغان عوام کی نمائندہ حکومت چاہتے ہیں،
افغانستان کی صورت حال کا پاکستان پر اثر ہوتا ہے،پارلیمانی ذرائع کے مطابق پارلیمانی کشمیر کمیٹی،سینیٹ اور قومی اسمبلی کی دفاعی کمیٹیوں کے اراکین نے پیر کو جی ایچ کیو کا دورہ کیا جہاں پر انہیں داخلی و قومی سلامتی،افغانستان کی صورت حال،سرحدی امور اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی،پارلیمانی کشمیر کمیٹی کی قیادت چیئرمین شہر یار آفریدی نے کی جبکہ سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کی سربراہی مشاہد حسین سید اور قومی اسمبلی کی دفاعی کمیٹی کی سربراہی امجد علی خان کررہے تھے۔جی ایچ کیو پہنچنے پر اعلیٰ عسکری حکام نے تینوں پارلیمانی کمیٹیوں کے اراکین کا استقبال کیا جس میں مسلم لیگ (ن)،پیپلز پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے اراکین بھی شامل تھے،ذرائع کے مطابق کمیٹیوں کے اراکین کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی جس میں افغانستان کی تازہ ترین صورت حال پر اراکین کو تفصیلی بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ افغانستان میں 15 اگست کو جو کچھ ہوا وہ غیر متوقع تھا،امریکہ نے انخلاء میں جلد بازی کی تاہم تمام تر صورت حال کے تناظر میں پاکستان نے اپنی سکیورٹی اور دفاع کو یقینی بنانے سمیت سرحدوں پر تمام اقدامات اٹھائے اور اب پاکستان مختلف ممالک کی درخواست پر ان کے شہریوں کے انخلاء میں بھی مدد دے رہا ہے،
آرمی چیف نے اس موقع پر واضح کیا کہ اہم امور پر فیصلے حکومت کرتی ہے اور فوج کا کام صرف مشورہ دینا ہے۔ شرکاء کو بتایا گیا کہ پاکستان افغانستان کی بدلتی صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ افغان طالبان تمام گروپس کو ساتھ لیکر چلیں گے اور ایک ایسی نمائندہ حکومت بنے گی جس کو افغان عوام
کی حمایت حاصل ہو،پاکستان نے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحا میں مذاکرات کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا،اس موقع پر سوال و جواب بھی ہوئے جس کا آرمی چیف نے خود جواب دیاجبکہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار سمیت اعلیٰ فوجی حکام بھی موجود تھے۔بھارت کے تمام تر صورت حال میں پاکستان کے خلاف
زہریلے پراپیگنڈے کی اراکین نے شدید مذمت کی اور کہا کہ بھارت کا افغانستان میں کوئی کردار نہیں رہا بلکہ بھارت افغانستان میں گیا ہی پاکستان کو عدم استحکام کرنے کیلئے تھا۔اراکین نے افواج پاکستان کی پیشہ وارانہ اور آپریشنل تیاریوں پر مکمل اظہار اطمینان کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج استحکام اور امن کی ضمانت ہے اور موجودہ
صورت حال میں جس طرح پاکستان کے بنیادی قومی سٹرٹیجک مفادات کا تحفظ یقینی بنایا گیا ہے اس پر پوری قوم کو فخر ہے،اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے بھی وطن کے دفاع اور استحکام کو یقینی بنانے کے لئے افواج پاکستان کے جوانوں اور افسروں کی قربانیوں اور کردار کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ دفاع اور سلامتی کے
معاملے پر تمام سیاسی جماعتیں فوج کے شانہ بشانہ ہیں اور اس معاملے پر کوئی دو رائے نہیں ہے،شرکاء کو بتایا گیا کہ افغان طالبان بار بار یقین دلا رہے ہیں کہ افغان سرزمین پاکستان سمیت کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اس پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنائیں گے کیونکہ گزشتہ دنوں افغانستان سے
دہشت گردوں نے پاک فوج چیک پوسٹ پر حملہ کیا جس میں 2 جوان شہید ہوئے،سرحدوں کی دفاع اور تحفظ کے لئے افواج پاکستان پوری طرح تیار ہے اور ایسی کسی بھی حرکت کا فوری اور منہ توڑ جواب دیا جاتا ہے۔بریفنگ کا اہتمام کرنے پر پارلیمانی کمیٹیوں کے سربراہوں اور اراکین نے آرمی چیف کا شکریہ ادا کیا جبکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ انہیں خوشی ہوتی ہے کہ اراکین پارلیمنٹ دفاع سے متعلق اہم معاملات پر سوال وجواب کرتے ہیں۔