برلن (این این آئی)جرمنی کے سبکدوش فور اسٹار جنرل اور نیٹو کے سابق سینئر کمانڈر ایگون رمس نے افغانستان میں طالبان کی انتہائی تیز رفتار پیش قدمی پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق انہوں نے حکومتی فورسز کی اہلیت پر بھی سوالات اٹھائے ۔
ایگون رمس نے کہاکہ طالبان جس تیزی بلکہ بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں اس سے میں حیرت زدہ رہ گیا ہوں۔جنرل ریمز نے کہا کہ انہیں اگست کے اواخر تک امریکی افواج کے مکمل انخلا کے متعلق امریکی صدر جو بائیڈن کے فیصلے نے حیرت میں ڈال دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس تیزی کے ساتھ افواج کا انخلا ہو رہا ہے اس نے نیٹو کی ذمہ داری پر متعدد سوالات کھڑے کر دئیے۔افواج کے انخلا کے فیصلے کو غلطی قرار دیتے ہوئے جنرل رمس نے کہا کہ یہ انخلا فوج کی تعداد میں کمی کے مقابلے میں یکسر مختلف ہے جس کا اعلان سن 2010 میں اس وقت کیا گیا تھا جب وہ سبکدوش ہو رہے تھے۔جنرل رمس نے کہاکہ سن 2010 میں ہم ازسرنو تعیناتی اور آئی ایس اے ایف مشن کو مختصرکرنے کی باتیں کر رہے تھے۔ لیکن اسے بہت تیزی سے انجام دیا گیا، سن 2014 میں بہت تیزی سے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ یہی غلطی اس مرتبہ بھی دہرائی گئی ہے۔ ہم اس ماہ مشن سمیٹنے جارہے ہیں۔جنرل رمس نے کہاکہ آخر افغان فورسز نے طالبان کے خلاف مضبوط جوابی حملے کیوں نہیں کیے۔ ہم نے افغان نیشنل آرمی کو تربیت دی اور بالخصوص امریکیوں نے انہیں بہترین اسلحوں سے اچھی طرح لیس کیا۔ اس لیے اس نقطہ نظر سے میرا سوال یہ ہے کہ آخر افغان فوج اس وقت کر کیا رہی ہے۔؟نیٹو کے سابق اعلی کمانڈر نے کہا کہ لاکھوں افغان فوجی ایسے ہیں جنہیں جنگ کا تجربہ ہے اور جنہوں نے امریکیوں اور جرمنوں سے تربیت حاصل کی ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ آخر وہ سب کہاں چلے گے،سابق جرمن جنرل نے کہاکہ آخر وہ پرانے فوجی کیا کررہے ہیں۔ تقریبا دو لاکھ فوجی اس وقت موجود ہیں۔ جن کے پاس اسلحہ بھی ہے اور جنہوں نے امریکیوں سے، جرمنوں سے اور دیگر ملکوں سے تربیت بھی حاصل کی ہے۔