اسلام آباد(آن لائن) مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی و سابق وفاقی وزیر خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ملک میں صاف شفاف الیکشن نہیں ہوں گے تو مسائل حل نہیں ہو سکتے،ماضی میں جو بھی حکومتیں رہی ہیں ان سے غلطیاں ہو ئیں اب ہم عوام کے پاس جائیں اور صاف اور شفاف انتخابات کروائیں،عوام طاقت کا سر چشمہ ہے ،مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے
سویلین سپرمیسی کا ترجمہ ووٹ کو عزت دو ہے، ملک میں کسی کو تحفظ نہیں ، امیر غریب کا فرق بہت بڑھ گیا ہے، الزام ہے کہ الیکشن چوری ہوتے ہیں، جس طرح کے حالات چل رہے ہیں اس میں ہم سب کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہونا چاہیے،میرا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ ہو گیا ہے، خطے میں جو صورتحال بن رہی ہے اس کا متحد قوم بن کر ہی مقابلہ کر سکتے ہیں، صورتحال الارمنگ ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا ۔ خواجہ آصف نے کہا کہ آئی ایس آئی نے آٹھ گھنٹے کی بریفنگ دی لیکن بریفنگ مکمل نہیں ہوئی ، صرف افغانستان پر بھی بریفنگ مکمل نہ ہو سکی، افغانستان کی صورتحال پر آدمی لا تعلق نہیں رہ سکتا، افغانستان میں امریکہ رات کے اندھیرے میں دو ٹریلین خرچ کر کے اور 35 سو نیٹو کے فوجی مروا کر چلاگیا ہے جس طرح سے افغانستان میں بد امنی رہی ہے اور جنگ کا اکھاڑہ بنا ہوا تھا ہم چاہتے ہیں وہاں خوشحالی ہو اور وہاں ایک اچھی حکومت ہو ۔اس خطے کے رہنے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے اس سے قبل ہم نے جو فیصلے کیے وہ کیسے رہے لیکن حالات نے ثابت کیا کہ وہ فیصلے غلط ثابت ہوئے ہیں اس ملک پر سب کا حق ہے محسن داوڑ جیسے لوگوں کو گلے لگائیں یہ ہماری سٹرٹیجک طاقت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال بن رہی ہے اس کا مقابلہ متحد قوم ہی مقابلہ کر سکتے ہیں
اگر ہم سب اکھٹے رہے تو ہم مقابلہ کر سکیں گے صورتحال الارمنگ ہے ، اور اگر گھر میں اتفاق نہ ہو تو حالات کا مقابلہ نہیں کیا جاستکا، سسٹم کو چلانے کے لیے آئین کا احترام بہت ضروری ہے 72 سال گزار لیئے ہیں ہمیں بہت دھچکے لگے ہیں آئین کے تحت یہ ایوان سب سے بڑا ادارہ ہے کیاآئین جو قوت دیتا ہے وہ ہمارے پاس ہے کہ نہیں
وزیراعظم نے کہا کہ تمام انتخابات پر سوالیہ نشان ہیں۔ ایک ٹھیک ہوا تو ملک ٹوٹ گیا۔انہوں نے کہا ہمارے ملک میں الیکشن ہونے سے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ فوج کو کہا جاتا ہے لیکن میرے نزدیک طاقتور لوگوں کو اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے سیاستدان اپنے اقتدار کے لیے دائیں بائیں دیکھتے ہیں تو پھر ہمارا حلقہ
اقتدار کم ہوتا جاتا ہے سیاستدانوں نے اپنے اقتدار کے لیے کس طرح سے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سرنڈر کیا ہے، ہماری مشرقی اور مغربی بارڈر ہے ، اگر ہم اسی طرح سے ملک چلاتے رہے تو افغانستان کی تبدیلی ہمارے اوپر منفی اثرات مرتب کرتی ہے تو یہ خطرہ ہے افغانستان کے فیصلے ان کی عوام کریگی لیکن پہلے فیصلے ہم نے یا
کسی اور نے کیے تو بہت نقصان ہوا دو ٹریلین ڈالر امریکہ نے لگایا لیکن ناکام رہے لیکن جو مشن لیکر آئے کہ لیکن ویت نام سے بھی بد تر حالات سے امریکہ نکلا ہے انہوں نے کہا کہ اس ملک صاف شفاف الیکشن نہیں ہوں گے تو مسائل حل نہیں ہو سکتے ماضی میں جو بھی حکومتیں رہی ان سے غلطیاں ہوئی ہیں اب ہم عوام کے پاس
جائیں اور صاف اور شفاف انتخابات کروائیں سپیکر قومی اسمبلی پر بھیذمہ داریآتی ہے کہ اس ایوان کوعوام کی خواہشات کے مطابق طاقت دیں 22,کروڑ عوام طاقت کا سر چشمہ ہے مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے سویلین سپرمیسی کا ترجمہ ووٹ کو عزت دو ہے اگر تمام الیکشنز پر سوالیہ نشان ہوگا الیکشن چرائے جائیں گے یہ ہماری
زمہ داری ہے کہ آئین جو ہمیں طاقت دیتا ہے اس کی حفاظت کریں میری عمر 72 سال ہے اس ایوان میں 32سال ہوگئے ہیں اس ایوان نے جو عزت دی ، سوچ بھی نہیں سکتے پہلے جو کچھ ہوا میں بھی اس کا حصہ رہا لیکن وہ درست نہیں تھا فوجی مداخلت کے نتیجے میں بننے والی حکومتوں کے سیاستدان حصہ بنے ہیں اگر سیاستدان حصہ
نہ بنتے تو ایسا نہ ہوتا انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جو بھی حکمران بنتے ہیں وہ خوشحالی دیں چائنہ،ایران ہمارے ساتھی ہیں سمندر پار لوگوں سے بھی دوستی ضروری ہے لیکن جن سے ہماری سرحد ملتی ہے ان سے تعلق ضروری ہے نائن الیون کے بعد ائے اورجس طریقے سے گئے تو طاقت کہاں گئی انہوں نے کہا کہ اس پارلیمنٹ کو
طاقت دی جائے تب ہی تمام مسائل حل ہوں گے ہمارے اوپر جو امیدیں تھیں ان پربھی پانی پھیر دیا گیاہے ہر دور میں سہولت کار سیاستدان ہی نظر آئینگے آئین پامال ہوا ملک دوٹکرے ہوا حقیقی خطرہ کتنا قریب ہے میری بھی زمہ داری ہے لیکن سپیکر قومی اسمبلی کی بہت بڑی ذمہ داری ہے اس ایوان کو بائی پاس نہ کیا جائے آج جو خطرہ منڈلا رہا ہے اس کے ذمہ دار ہم ہیں ملک میں کسی کو تحفظ نہیں ہے امیر غریب کا فرق بہت بڑھ گیا ہے الزام ہے کہ الیکشن چوری ہوتے ہیں۔