کراچی(این این آئی)نائب صدر کراچی چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری(کے سی سی آئی)اورماہر اجناس شمس الاسلام خان نے کہا ہے کہ شوگر ملز مالکا ن نے عالمی مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کو جواز بنا کر قیمتیں بڑھائیں لیکن اب جبکہ عالمی مارکیٹ میں قیمتیں گری ہیں تو ملک میں قیمتیں کم کرنے کے بجائے مزید بڑھادی ہیں،حکومت کے
نرم رویئے کی وجہ سے چینی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔نجی ٹی وی کے پروگرام میں خصوصی گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شوگر ملز مالکان 230ارب کا اضافی منافع عوام کی جیب سے نکال چکے،صرف رواں سال کے 7ماہ میں 32ارب روپے کا اضافی منافع کمایا گیا ہے۔انہوں نے بتایاکہ حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعہ 40کروڑ روپے اضافی منافع شوگر ملز مالکان کی جیب میں ڈال دیا ہے۔وزیراعظم کے بار بار دعوئوں اور وعدوں کے باوجود شوگر مافیا جیت رہا ہے، حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق چینی 110روپے تک فروخت ہو رہی ہے جبکہ اوسط قیمت 100روپے سے اوپر چلی گئی ہے۔شوگر ملز مالکان حکومت کی طرف سے بتائی گئی ایکس مل قیمت کے مطابق بھی تحریک انصاف کی حکومت میں 230ارب روپے کا اضافی منافع عوام کی جیب سے نکال چکے ہیں، صرف اس سال کے سات مہینے میں 32ارب روپے کا اضافی منافع کمایا گیا ہے۔تجزیہ کار کے مطابق حکومت نے اس سال 200روپے
فی من گنے کی سپورٹ پرائس رکھی، کسانوں نے اس قیمت پر شوگر ملز مالکان کو گنا بیچنے سے انکار کردیا اور دعوی کیا کہ گزشتہ دو برسوں سے شوگر ملز مالکان ہم سے 180سے 190روپے کی سپورٹ پرائس پر گنا خرید رہے ہیں اور چینی کی قیمت 55روپے سے بڑھا کر 100روپے پر پہنچادی ہے، ملز مالکان دو سال سے اربوں روپے کمارہے ہیں اور
ہماری لاگت بڑھنے کے باوجود ہمیں کم پیسے دے رہے ہیں اس لئے ہم 200روپے فی من پر گنا نہیں بیچیں گے۔رپورٹ کے مطابق شوگر ملز مالکان 200روپے سے زائد قیمت پر گنا خریدنے پر مجبو ر ہوئے اور چینی کی قیمت بڑھاتے چلے گئے، حکومت کے مطابق گنا اتنا مہنگا نہیں خریدا گیا جتنا شوگر ملز مالکا ن نے دعوی کیا ہے، لیکن پھر بھی
حکومت نے شوگر ملز مالکان کی 265روپے فی من کی قیمت کو قبول کیا اور دعوی کیا کہ شوگر ملز مالکان کی بتائی گئی قیمت کے مطابق چینی کی ایکس مل قیمت 80روپے اور ریٹیل قیمت 85روپے فی کلو ہونی چاہئے لیکن حکومت 85روپے فی کلو پر چینی کی فروخت یقینی نہیں بناپائی۔پروگرام کے میزبان کے مطابق گزشتہ برس نومبر تک چینی کی قیمت
100روپے فی کلو تھی، نومبر میں گنے کی کرشنگ اور چینی کی درآمد کے بعد دسمبر میں چینی 85روپے فی کلو پر فروخت ہونے لگی، لیکن ایک مہینے بعد ہی جنوری میں چینی کی اوسط قیمت 91روپے 25پیسے ہوگئی، پاکستان میں اوسط 45لاکھ ٹن ماہانہ چینی کی کھپت ہے، شوگر کمیشن کے مطابق چینی کی قیمت میں ایک روپے کے اضافے سے شوگر ملز
مالکان کو 5روپے 25پیسے کا اضافی فائدہ ہوتا ہے، جنوری میں چینی کی قیمت 91روپے 25پیسے ہوگئی تھی جو حکومت کی مقرر کردہ 85روپے سے 6روپے 25پیسے زیادہ تھی، اس کا مطلب ہے شوگر ملز مالکان نے ایک مہینے میں 3ارب روپے سے زیادہ کا اضافی منافع کمایا، فروری میں قیمت مزید بڑھ کر 93روپے ہوگئی یعنی ساڑھے 3ارب روپے
کا اضافی منافع ہوا، مارچ میں یہ قیمت مزید بڑھ کر 98روپے ہوگئی اور شوگر مافیا نے صرف اس مہینے میں 6ارب روپے کا اضافی منافع کمایااپریل میں 97روپے کی قیمت پر ساڑھے 5ارب روپے کا اضافی منافع، مئی میں 98روپے قیمت پر 6ارب روپے کا اضافی منافع جبکہ جون میں بھی 98روپے کی ہی قیمت پر 6ارب روپے کا اضافی منافع شوگر ملز
مالکان نے کمایا، جولائی میں اب تک چینی کی اوسط قیمت 100روپے 65پیسے رہی ہے یعنی اس مہینے کے صرف 9دن میں شوگر ملز مالکان 2ارب روپے کا اضافی منافع کماچکے ہیں اور صرف سوا 7ماہ میں عوام کی جیب سے 32ارب روپے نکالے جاچکے ہیں۔گزشتہ سال فروری میں شوگرکمیٹی بنائی گئی تو چینی 79روپے فی کلو تھی، 21مئی کو
شوگر کمیشن کی رپورٹ آئی تو چینی 82روپے فی کلو ہوگئی اور اب 100روپے سے اوپر چلی گئی ہے حکومت ایک طرف مارکیٹ میں چینی کی قیمتیں کم کرنے کا دعوی کرتی رہی لیکن دوسری طرف یوٹیلٹی اسٹورز پر اپنے ہی طے کردہ 80روپے کی ایکس مل پرائس پر چینی نہیں خرید رہی ہے، گزشتہ دنوں یوٹیلٹی اسٹورز نے 90روپے فی کلو کی قیمت پر
40ہزار ٹن چینی خریدی جو یوٹیلٹی اسٹورز کو 100روپے کی پڑے گی حکومت نے اس طرح یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعہ 40کروڑ روپے اضافی منافع شوگر ملز مالکان کی جیب میں ڈال دیا ہے، یوٹیلیٹی اسٹورز کیلئے چینی 100روپے میں خرید کر حکومت مارکیٹ میں یہ سگنل دے رہی ہے کہ چینی 100روپے سے اوپر ہی بکے گی۔