واشنگٹن (این این آئی )امریکی اور اتحادی افواج کا افغانستان سے انخلا تیزی سے جاری ہے، افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں میں تیزی کے بعد دارالحکومت کابل پر بھی خوف کے بادل منڈلا رہے ہیں کیونکہ طالبان کابل سے کم و بیش 4 گھنٹے کے فاصلے پر لغمان کے علاقے میں موجود ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ماہرین نے بتایاکہ اب تک افغانستان کے دارالحکومت کابل اور 34
صوبائی دارالحکومتوں کے علاوہ کل 372 اضلاع میں سے 110 پر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے ، افغان فوج طالبان کی کارروائیوں کا مقابلہ تو کر رہی ہے مگر دارالحکومت کابل میں عام آدمی خوف کا شکار ہے۔طالبان کابل سے کم و بیش 4 گھنٹے کے فاصلے پر لغمان کے علاقے میں موجود ہیں۔دوسری جانب امریکی افواج کا انخلا تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے اور عالمی برادری کی طرف سے طالبان کی افغانستان میں کارروائیوں پر کوئی موثر ردعمل بھی سامنے نہیں آیا۔دوسری جانب طالبان کی ممکنہ آمد سے افغان خواتین انتہائی خوف زدہ ہیں،قتل ، کوڑے مارنے ، تشدد اور کنوارے پن کی تصدیق جیسے خدشات افغان خواتین کے دماغ میں ایک بار اس لیے تازہ ہوگئے ہیں کیونکہ طالبان اپنے پچھلے دور میں خواتین پر اس طرح کے جبر کرچکے ہیں،عرب ٹی وی نے افغان خواتین کی طالبان کی اقتدار میں واپسی کے خوف کی وجوہات کا جائزہ لیا۔ رپورٹ میں افغانستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے محرکات کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اس حوالے سے سب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا افغان خواتین کے تحفظ کے لیے نئی قانون
سازی کرنے کی ضرورت ہے؟قتل ، کوڑے مارنے ، تشدد اور کنوارے پن کی تصدیق جیسے خدشات افغان خواتین کے دماغ میں ایک بار اس لیے تازہ ہوگئے ہیں کیونکہ طالبان اپنے پچھلے دور میں خواتین پر اس طرح کے جبر کرچکے ہیں۔افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کی تکمیل کے بعد حالات ماضی کی طرف اور طالبان کی اقتدار پر قبضے کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ طالبان کا اقتدار پر
قبضہ ہی خواتین کے لیے خوف کا سب سے بڑا محرک ہے۔پچھلی دو دہائیوں سے خاص طور پر افغان خواتین کے لیے ملک میں بہت سی تبدیلیاں آئیں۔ لڑکیاں اسکول جانے لگیں خواتین سیاسی میدان اور کاروبار میں آگے آنے لگیں، لیکن طالبان تحریک کی بڑھتی ہوئی طاقت کے ساتھ خدشہ ہے کہ یہ فوائد غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد ضائع ہوجائیں گے۔طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد افغان
خواتین نے سکھ کا سانس لیا تھا اور وہ تیزی سے زندگی میں واپس آنے میں کامیاب ہوگئیں۔ طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے اسکول جانے پر پابندی عائد کردی تھی۔ آج اگر طالبان کی طرف سے اسکولوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو یہ تعجب کی بات نہیں۔حال ہی میں داشتی پاشتی کے علاقے میں قائم “سید الشہدا اسکول” کو نشانہ بنایا گیا جس میں 60 طالبات ہلاک اور ڈیڑھ سو سے زاید زخمی ہوگئیں۔