مکوآنہ (این این آئی )فیصل آباد سمیت پنجاب بھر میں مختلف محکموں کے افسروں سے اضافی گاڑیاں واپس لینے کا فیصلہ، وزیر اعلیٰ پنجاب نے افسروں کے زیر استعمال 30 گاڑیاں فوری طور پر واپس لینے کی ہدایات جاری کردیں۔پنجاب حکومت نے کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ جن افسروں کے پاس اضافی سرکاری گاڑیاں زیر
استعمال ہیں وہ ان سے واپس لی جائیں لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا، ایڈیشنل چیف سیکریٹری ارم بخاری نے کابینہ کے ہونے والے اجلاس میں بتایا تھا کہ متعدد محکموں اور افسران کی جانب سے 30 گاڑیاں ابھی تک واپس نہیں کی گئیں۔رپورٹ کے مطابق ڈی سی لاہور، ڈی جی پنجاب ہیومین اورگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی سے اضافی گاڑیاں واپس لی جائے گی، پی ایچ اے، محکمہ زراعت، محکمہ ہاؤسنگ، ڈی جی پی ایچ اے فیصل آباد کے آفیسرز سے اضافی گاڑیاں واپس لیں جائیں گی۔ صاف پانی کمپنی کی 10 گاڑیاں بھی ٹرانسپورٹ ونگ کو واپس کرنے کا حکم دیا گیا۔رپورٹ کے مطابق محکمہ آبپاشی، لائیو اسٹاک کے افسران سے اضافی گاڑیاں واپس لی جائیں گی، پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر، محکمہ توانائی اور پی کے ایل آئی کو اضافی گاڑیاں واپس کرنے کا حکم دیا گیا۔دوسری جانب جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ نے پنجاب حکومت سے 50 گاڑیاں مانگ لیں، گاڑیاں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ میں تعینات افسروں کو دی جائیں گی۔واضح رہے کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں عوام کیلئے کوئی خاص ریلیف نہیں مہنگائی کا حجم برقرار اور اشیا خوردنی کی قیمتوں میں کمی نہیں لائی گئی تنخواہوں اور پینشنز میں بھی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ادویات اور انسانی جانیں بچانے والی دواوں کی قیمتیں کم نہ ہونا عوام پر بوجھ ہے بجٹ سازی
کے عمل میں عوام کو ریلیف دینے عوام دوست بجٹ کا ہونا ضروری ہے تفصیلات کے مطابق نئے مالی سال 2021_22_کے بجٹ کے حوالے سے آن لائن کے ایک عوامی سروے میں مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے موجودہ نئے مالی سال کے بجٹ کو عوام کے حق میں نہ ہونے والا بجٹ قرار دیا ہے ان حلقوں کا
کہنا ہے کہ بجٹ سازی کے عمل میں عوام کے مفادات کو شامل رکھنا اور عوام کو زیادہ سے زیادہ بجٹ میں ریلیف دینے کی اشد ضرورت ہوتی ہے غریب عوام جس کا دارو مدار دال چینی چاول اور دیگر خوردنی اشیا پر ہوتا ہے ان خوردنی اشیا کی قیمتوں میں کمی کرنے کی بجائے قیمتوں میں گرانی عوام پر اضافی بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے
پیٹرول ڈیزل اور گیس کی روز بروز بڑھتی قیمتیں بھی عوام پر ہی مالی بوجھ ہیں سروے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بجٹ میں شفافیت اور بجٹ سازی میں میں عوامی آرا اور امنگوں کو بھی خاطر محلوظ لائے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بجٹ سازی کے عمل کو بڑی اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے بجٹ سازی میں عوام
اور سول سوسائٹی سمیت ماہرین اقتصادیات و معشیت کو بھی شامل کرکے بجٹ کی تیاری میں ان سے استفادہ کیا جاتا ہے بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس طرح کا کوئی منطق اور سوچ نہیں یہاں حکمران طبقہ خود اپنی مرضی سے بجٹ بناتا ہے جو عوامی امنگوں اور ضروریات کے مطابق نہیں ہوتا اور عوام ریلیف سے یکسر محروم رکھی
جاتی ہے آن لائن کے کئے گئے بجٹ کے متعلق سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ غریب عوام کو بجٹ میں ریلیف دینے اور مہنگائی کم کرنے کی ضرورت پر سنجیدگی سے نہ صرف غور بلکہ عمل کرنا مقصود ہے اور ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ آئین کی رو سے بجٹ سازی میں شفافیت کیلئے عوام اور ملک اور معاشرے کے
ذمہ دار طبقات کی شمولیت اور رائے بھی شامل کی جائے تاکہ بجٹ میں شفافیت ہو اور ملکی بجٹ ملک کی عوام کے مفادات اور امنگوں کے عین مطابق ہو اور اسی عمل سے عوام کو بجٹ میں ریلیف حاصل ہوگا اور عوام کا نہ صرف معیار زندگی بہتر ہو گا بلکہ عوام اور حکومت کے درمیان بہتر تعلقات بھی ہونگے۔