جوبائیڈن انتظامیہ نے سعودی عرب کو بڑا جھٹکا دے دیا‎

20  جون‬‮  2021

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک/این این آئی )امریکی فوج کے ہیڈکوارٹر نے مشرقِ وسطیٰ میں تعینات ملکی فوج میں کمی کرنے کی تصدیق کی ہے۔ فوجیوں کی تعداد میں کمی کے ساتھ ساتھ فضائی دفاعی فورسز اور وہاں نصب پیٹریاٹ میزائلوں میں کمی کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ڈوئچے ویلے کی رپورٹ کے مطابق مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں امریکی فوجی دستے کم کرنے سے متعلق ایک رپورٹ معتبر جریدے

وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کے مندرجات کی اب امریکی محکمہ دفاع کے صدر دفتر پینٹاگون نے باضابطہ تصدیق کر دی ہے۔مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں امریکی فوج میں کمی، ایئر ڈیفنس یونٹس اور وہاں نصب کئی میزائل بیٹریاں ہٹانے کے بارے میں ایک بیان پینٹاگون نے جمعہ اٹھارہ جون کو جاری کیا۔پینٹاگون کے مطابق خطے میں امریکی فوجی دستوں میں کمی کے ساتھ ساتھ ایئر ڈیفنس یونٹس بھی ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ آٹھ پیٹریاٹ میزائل بیٹریاں بھی ہٹا لی جائیں گی۔ ہر میزائل بیٹری سے منسلک سینکڑوں فوجی اور سویلین عملہ بھی منتقل کر دیے جائیں گے۔پینٹاگون کی ترجمان کمانڈر جیسیکا مکنلٹی نے واضح کیا کہ ہٹائے جانے والے فوجی یونٹوں کو دوسرے ممالک میں تعینات کیا جائے گا۔ انہوں نے اس فوجی تعیناتی کے لیے نئے ممالک کے نام بتانے سے گریز کیا۔امریکی فوجی ہیڈکوارٹر کی ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کٹوتی کا فیصلہ خطے میں اتحادی ممالک کے ساتھ رابطہ کاری سے کیا گیا۔ مکنلٹی نے یہ بھی کہا کہ خطے کی سکیورٹی صورت حال پر مسلسل نگاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ امریکی فوج کا طاقتور تشخص بھی بحال رکھا جائے گا۔ ترجمان کے مطابق خطے کی سلامتی سے متعلق امریکی ذمے داریاں پوری کی جائیں گی۔امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ بظاہر ایران کے ساتھ پیدا شدہ تناؤ اور کشیدگی کم کرنے کی کوشش میں ہے۔ ایران کے ساتھ امریکی کشیدگی سن 2019 میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ اس کے بعد ہی خطے میں امریکی فوجی موجودگی کو بڑھایا گیا تھا۔ پیٹریاٹ میزائلوں کی بیٹریوں کی تنصیب عراق، کویت، اردن اور سعودی عرب میں کی گئی تھی۔ ان کے علاوہ انتہائی جدید دفاعی میزائل نظام تھاڈ (THAAD) بھی سعودی عرب منتقل کر دیا گیا تھا۔امریکی فوج افغانستان سے اپنی دستے نکالنے کے بعد

بھی عالمی سطح پر اپنے عسکری معاملات اور دلچسپیوں کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ واشنگٹن کو ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں چین کی طرف سے عسکری اور معاشی مسابقت کا سامنا ہے۔ دوسری جانب ایران اس وقت بھی مشرق وسطیٰ میں خطرے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔امریکا اب بھی عراق میں جہادی تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف بغداد حکومت کے فوجی اقدامات کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ پینٹاگون کی ترجمان کے مطابق اس وقت بھی ہزاروں امریکی فوجی مشرق وسطیٰ میں موجود ہیں،

جو وہاں امریکی عسکری تشخص کے علمبردار ہیں۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کشیدگی میں اضافے کے پیش نظر آرمی چیف، وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کو تبدیل کردیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ لڑائی میں تیزی سے اضافے پر بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں۔رپورٹ کے مطابق صدارتی محل کی جانب سے ان تبدیلیوں کا اعلان حالیہ ہفتوں میں ملک کے 34 میں سے 28 صوبوں میں طالبان کے ساتھ سیکیورٹی فورسز کی لڑائی کے دوران زیر قبضہ علاقوں سے

محرومی کے بعد کیا گیا ہے۔افغان وزیر دفاع اسد اللہ خالد کو ہٹا کر ان کی جگہ بسم اللہ خان محمدی کو عبوری وزیر مقرر کیا گیا ہے، جو طویل علالت کے بعد حال میں وطن واپس لوٹے ہیں۔اس کے علاوہ اشرف غنی نے حیات اللہ حیات کی جگہ عبدالستار مرزا کوال کو وزیرداخلہ مقرر کر دیا ہے۔نئے وزیر دفاع بسم اللہ خان محمدی سوویت یونین کے خلاف جنگ میں احمد شاہ مسعود کے سینئر کمانڈر تھے،

وہ فوج سے متعلق وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور وزیر دفاع کی حیثیت سے بھی کام کر چکے ہیں، اس کے علاوہ سابق صدر حامد کرزئی کی حکومت میں آرمی چیف آف اسٹاف بھی رہ چکے ہیں۔جنرل ولی محمد احمدزئی کو افغانستان کا نیا چیف آف آرمی اسٹاف تعینات کیا گیا ہے، جو جنرل یاسین ضیا کی جگہ لیں گے۔سیکیورٹی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ دو روز قبل ہی شمالی صوبے فریاب میں

طالبان کے ساتھ لڑائی میں افغان اسپیشل فورسز کے 24 ارکان ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ افغان فورسز صوبے میں طالبان کی جانب سے قبضہ کیے گے اضلاع کو واپس لینے کے لیے کارروائی کر رہے تھے۔رپورٹ کے مطابق طالبان نے یکم مئی سے امریکی فوج کے انخلا کے آغاز سے اپنا اثر رسوخ بڑھانے کے لیے مہینہ بھر کی مہم شروع کر رکھی ہے جبکہ امریکی فوج نے اپنی متعدد بیسز خالی کرکے افغان فوج کے حوالے کردی ہیں۔امریکا نے اپریل میں اعلان کیا تھا کہ 11 ستمبر

تک فوج کا انخلا مکمل ہوگا اور جب سے طالبان نے تقریباً 30 اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سیکیورٹی عہدیدار نے کہا کہ طالبان نے حالیہ ہفتوں میں شدید لڑائی کو پھیلا دیا ہے اور اس کے نتیجے میں افغان سیکیورٹی فورسز اور عوام کا بھاری جانی نقصان ہو رہا ہے۔یاد رہے کہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں 8 جون کو ہونے والے واقعات میں 150 افغان فوجی ہلاک و زخمی ہوگئے تھے۔افغان حکومت کے سینئر عہدیداروں کے مطابق ملک کے 34 میں سے 26 صوبوں میں اس وقت کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہلاکتوں میں پریشان کن حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…