اسلام آباد(آن لائن)پارلیمانی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے وزارت آبی وسائل اور واپڈا میں موجودہ حکومت کے دور میں ہونے والی بے قاعدگیوں پر سخت اظہار برہمی کیا ہے اور واپڈا سے مہمند ڈیم منصوبے کا ٹھیکہ چینی کمپنی اور عبد الرزاق داؤد کی کمپنیوں کو دینے کی تفصیلات طلب کرلی ہیں،کمیٹی نے کورونا وائرس پر قابو پانے کے لئے
1200 ارب سے زائد ریلیف پیکج میں مبینہ بے قاعدگیوں کی بھی رپورٹ مانگ لی ہے،آڈیٹر جنرل کا کہنا ہے کہ 30 جون 2020 تک 354 ارب روپے جاری ہوئے تھے جس کا آڈٹ کیا گیا۔جمعرات کے روز چیئرمین کمیٹی رانا تنویر کی زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کااجلاس ہوا جس میں کورونا وباء سے نمٹنے کیلئے دیئے گئے امدادی پیکج ،آبی وسائل اور واپڈا میں بے قاعدگیوں کا معاملہ زیر غور آیا۔آڈیٹر جنرل نے اجلاس کو بتایا کہ کورونا وباء سے نمٹنے کیلئے 12 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا گیا،سال2019-20کے دوران کورونا سے نمٹنے کیلئے 354 ارب روپے جاری کیے گئے جس کا باقاعدہ آڈٹ کیا گیا،رپورٹ کے مندرجات سے فی الحال آگاہ نہیں کر سکتا۔ جس پر کمیٹی نے وزارت خزانہ اور نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی،چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزارت خزانہ نے کورونا فنڈز آڈٹ رپورٹ دبا کر رکھی ہوئی ہے۔اجلاس میں وزارت آبی وسائل کی آڈٹ رپورٹ 2019-20 کا جائزہ لیا گیا جبکہ تھور نالہ کے قریب وادی تھور میں واپڈا کالونی کی تعمیر کا معاملہ بھی اجلاس میں زیر غور آیا۔آڈٹ حکام نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ واپڈا نے ڈی بی سی کنسلٹنٹس سے واپڈا کالونی کا ڈیزائن تیار کروایا ہے،ناقص ڈیزائن کے باعث 2015 کے سیلاب میں کالونی کو نقصان پہنچا،کالونی 5 ارب 61کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہوئی،نقصان کی ذمہ داری کنسلٹنٹ پر عائد ہوتی ہے۔واپڈا نے نقصانات کی مد میں کنسلٹنٹ سے صرف 11 کروڑ 80 لاکھ روپے وصول کیے ہیں ،جس پر کمیٹی چیئرمین رانا تنویر حسین نے کہا کہ وفاقی سیکرٹریز اور اعلی افسران اپنے سے پہلے والے افسروں کی کرپشن کا دفاع کیوں کرتے ہیں،کرپشن ختم کرنا سرکاری افسران کی ڈیوٹی ہے، سرکاری افسران کے پیٹی بھائی ہی اس میں ملوث ہوتے ہیں،پردہ ڈالنے کی بجائے کرپٹ افسران کو بے نقاب کیا جائے،ایک ارب روپے کا گھپلا کرکے افسر کو ریٹائر کردیا جاتا ہے،یہ سب تماشا ہے،کرپٹ افسران سے پیسہ وصول ہونا چاہیے۔