اسلام آباد(آن لائن) کورونا وباء کے سبب نجی تعلیمی ادارے ڈیڑھ سال تک بند رہے۔ ہزاروں تعلیمی ادارے اپنی بقاء کی جنگ لڑتے لڑتے ختم ہو گئے۔ حکومت نے اس اہم شعبہ کی بحالی کے لیے کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا۔ حکومت کو سالانہ اربوں روپے ٹیکس دینے والا یہ شعبہ حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور حکمت سے عاری
فیصلوں کی بھینٹ چڑھگیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت تک ملک کے 50% نجی تعلیمی ادارے مکمل طور پر بند ہوچکے ہیں۔ان خیالات کا اظہار آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی کے عہدیداران کاشف ادیب جاودانی، ابرار احمد خان، عرفان طالب، مسز سکینہ تاج، ابرار احمد ایڈووکیٹ نے ایک مشترکہ بیان میں کیا۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں کورونا سے بھی بڑھ کر تعلیمی بحران پیدا ہوچکا ہے۔ معیشت پر اس کے منفی اثرات عرصہ دراز تک محسوس کیئے جائیں گے۔ سب سے زیادہ نقصان کم فیس کے حامل تعلیمی اداروں کو ہوا ہے۔ حکمرانوں کی بے حسی اور عدم توجیح کے باعث سب سے زیادہ یہ شعبہ متاثر ہوا ہے اور اسی کی طرف سب سے زیادہ توجہ دی جانی چاہئے تھی۔ لمحہ فکریہ یہ کہ اس وقت تک آؤٹ آف سکولز بچوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے غربت و مہنگائی کے باعث بچوں میں چائلڈ لیبر کا رجحان بڑھا ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت آئندہ بجٹ میں تباہ حال تعلیمی اداروں کی بحالی کے لیے رقم مختص کرے۔تعلیمی اداروں کو ہونے والے غیر معمولی نقصان کا ازالہ کرتے ہوئے 4 ہزار روپے سے کم فیس وصول کرنے والے تعلیمی اداروں کو 5 سال تک تمام قسم کے ٹیکسز سے مستنثنی قرار دے۔بجلی کے ٹیرف کو کمرشل کی بجائے ڈومیسٹک کیا جائے۔2018 والی
پوزیشن پر بحال کیا جائے۔تمام نجی تعلیمی اداروں کے بجلی کے نظام کو آسان شرائط پر سولر سسٹم پر منتقل کیا جائے۔تعلیم کے لیے مختص کردہ بجٹ کو انٹر نیشنل سٹینڈرڈ کے مطابق 4% کیا جائے۔ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کا فوری نفاذ کیا۔ تعلیمی کو اولین ترجیح دی جائے۔ ملک بھر کیکینٹونمنٹس کی حدود میں واقع نجی تعلیمی اداروں کی منتقلی کے فیصلے کو واپس لیا جائے حکومت کینٹونمنٹس ایکٹ میں اسمبلی کے ذریعے مناسب ترمیم کرکے نجی تعلیمی اداروں کو اپنی خدمات جاری رکھنے کی اجازت دے۔