اسلام آباد (آن لائن)مریم نواز نے کہا کہ جس موقف کا مولانا نے اظہار کیا وہی موقف نوازشریف کا بھی ہے۔ ایسے ماحول میں آواز اٹھانا کو ئی چھوٹی بات نہیں۔ ہم نے سیاست ، صحافت اور عدالت کے لیے جدوجہد کی ۔ ہماری عوام کے لیے کی جانے والی جدوجہد سے غیر جمہوری قوتیں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئیں۔ یہ سب کچھ مفاہمت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا اب یہ پاکستان میں نہیں گا کہ کوئی
خود کو عوام کے علاوہ طاقت کا سرچشمہ سمجھے۔ عوام کے پاس جانا پی ڈی ایم کا حق ہے۔ مایوسی کے عالم میں جلسے جلوس نہیں کیے جاتے ۔ عوام کے ساتھ کھڑے ہونا پی ڈی ایم کی کمزوری نہیں بلکہ پی ڈی ایم کی مضبوطی کی نشانی ہے۔ مریم نواز نے کہا پیپلز پارٹی شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر تسلیم کرتی ہے۔ پی ڈی ایم کی اپنی حکمت عملی ہے اور پارلیمنٹ کی اپنی حکمت عملی ہے۔ دونوں کو یکجا نہ کیا جائے۔ اپوزیشن لیڈر کے طور پر شہباز شریف اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہیں۔ پی ڈی ایم کامکمل طور پر آزادانہ کردار ہے۔ پیپلز پارٹی اب پی ڈی ایم کا حصہ نہیں اس لیے اب وہ میرا حدف بھی نہیں ہے۔ درخواست ہے کہ بار بار مجھے پیپلز پارٹی سے متعلق سوال میں نہ الجھایا جائے۔ اس موقع پر ان سے سوال کیا گیا کہ ن لیگ میں مفاہمت کی سیاست ہو گی یا مزاحمت کی؟ اس پر انہوں نے کہا کہ اگر مزاحمت ہو گی تو ہی مفاہمت ہو گی، پاور ٹاکس ٹو پاور ۔پاور کمزور ی سے بات نہیں کرتی۔ جہاں کمزوری دیکھائی دشمن حملہ آور ہو گا۔ کوئی بھی چیزٹرے میں رکھ کر نہیں ملتی۔ آپ کو اپنا حق لڑ کر اور چھین کر لینا پڑتا ہے۔ آج ملک میں میڈیا نمائندگان اور ججز پر حملے ہو رہے ہیں۔ جب سچ بولنے اور سچ لکھنے پر سزا دی جائے تو دل دکھتا ہے۔