بھارت نے سنگاپور سے معذرت کر لی

20  مئی‬‮  2021

نئی دہل (این این آئی) کورونا کے مبینہ سنگاپور ویریئنٹ کے حوالے سے دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے ایک ٹوئٹ کیا تھا۔ سنگا پور نے اس پر بھارتی سفیر کو طلب کرلیا اور بھارتی رہنما کے اس بیان پر ‘سخت اعتراض‘ کیا۔بھارتی وزیرخارجہ ایس جے شنکر نے اس تنازعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہلی کے

وزیر اعلی کا بیان بھارت کا بیان نہیں ہے۔ انہیں کووڈ ویریئنٹ اور سول ایوی ایشن پالیسی پر بولنے کا حق نہیں ہے اور ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے باہمی دوستانہ تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے سفیر کو سنگاپور حکومت کی جانب سے طلب کیے جانے کے حوالے سے بھی ایک بیان جاری کیا۔ حالانکہ سفارت کاری میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ اپنے سفیر کو کسی دوسرے ملک کی طرف سے کسی معاملے پر ناراضی ظاہر کرنے کے لیے طلب کیے جانے کی کوئی ملک باضابطہ تصدیق کرے۔کیا ہے معاملہ؟دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک اور ٹوئٹر پر ایک بیان جاری کرکے کہا تھا کہ سنگاپور میں کورونا کا نیا ویریئنٹ آیا ہوا ہے جو بچوں کے لیے کافی خطرناک ہے اس لیے وہاں سے فضائی سروسز بند کردینا چاہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ قسم تیسری لہر کی شکل میں پھیل سکتی ہے۔ انہوں بچوں کے لیے ویکسین کے متبادل کو ترجیحی بنیاد پر شروع کرنے کا بھی مشورہ دیا تھا۔عام آدمی پارٹی کے رہنما کیجریوال کے ٹوئٹ پر سب سے پہلے بھارت میں سنگاپور کے ڈپلومیٹک مشن نے اعتراض کیا۔ سنگاپور ڈپلومیٹک مشن نے اپنے آفیشیل ٹوئٹر پر دہلی کے وزیر اعلی کے ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا، ’’آپ کی اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ سنگاپور

میں کووڈ کا کوئی نیا اسٹرین آیا ہے۔ جانچ سے پتہ چلا ہے کہ B.1.617.2 ویریئنٹ ہی کووڈ کے زیادہ تر کیسز میں موجود ہے اور حالیہ ہفتوں میں بچوں میں بھی یہی ویریئنٹ پایا گیا ہے۔سنگاپور کی وزارت خارجہ نے دہلی کے وزیر اعلی کے بیان پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں بھارت کی ایک اہم سیاسی شخصیت کے بیان سے

سخت مایوسی ہوئی ہے جنہوں نے حقائق کا پتہ لگائے بغیر ایسے دعوے کردیے۔ سنگا پور کی وزارت صحت پہلی ہی واضح کر چکی ہے کہ ‘سنگاپور ویریئنٹ‘ نام سے کورونا کا کوئی نیا ویریئنٹ نہیں ہے بلکہ حالیہ ہفتوں میں کورونا کے جو کیسز سامنے آئے ہیں ان کا پہلی بار بھارت میں ہی پتہ چلا تھا۔سنگا پور کی وزارت خارجہ نے اپنے

بیان میں مزید کہا کہ اس نے بھارتی ہائی کمشنر پی کمارن کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے بھارتی رہنما کے بیان پر ‘سخت ناراضی‘ ظاہر کی ہے۔بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ایک ٹوئٹ کرکے کہاکہ میں یہ واضح کرتا ہوں کہ دہلی کے وزیر اعلی کا بیان بھارت کا بیان نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ غیر ذمہ دارانہ بیان دینے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے اس طرح کے تبصروں سے دیرینہ شراکت والی دوستی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…