جمعہ‬‮ ، 15 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

11ستمبر کو ریلیز ہونیوالی فلم ”کون ہے منٹو“کا ہر شو ہاﺅس فل کیوں ہے؟

datetime 15  ستمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(نیوزڈیسک)11ستمبر کو ریلیز ہونیوالی فلم ”کون ہے منٹو“کا ہر شو ہاﺅس فل کیوں ہے؟ جانیئے پاکستانیوں کی شاہکارکاوش کے بارے میں،فلم سینماو¿ں میں بھرپور رش لے رہی ہے اور پاکستان میڈیا پر آنے والی اطلاعات کے مطابق اس کے بیشتر شو ہاو¿س فل جا رہے ہیں،سعادت حسن منٹو کا نام اور ان کا کام اس قدر بڑا ہے کہ ان کی زندگی کو صرف دو گھنٹوں کی فلم میں گرفت میں لینا کسی سرکش ندی پر کچی اینٹوں سے بند باندھنے کے مترادف ہے۔شخصیت تو چلیں کسی حد تک پھر بھی آ ہی جائے، لیکن فن کا کیا کیا جائے؟اس مشکل کو حل کرنے کے لیے گذشتہ ہفتے نمائش کے لیے پیش کی جانے والی فلم ’منٹو‘ کے لیے شاہد ندیم نے جو سکرپٹ لکھا اس میں انھوں نے منٹو کی تخلیقات بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور ایک دو نہیں، بلکہ کئی تخلیقات۔
فلم کے دوران میں نے جو افسانے سکرین پر مختلف شکلوں میں دکھائے گئے ان میں ’کھول دو،‘ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ،‘ ’لائسنس،‘ ’ہتک،‘ ’پشاور سے لاہور،‘ اور ’ٹھنڈا گوشت‘ قابلِ ذکر ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ منٹو کے فن کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے، فلم میں دو عدد ریڈیائی ڈرامے اور نورجہاں پر لکھا گیا خاکہ بھی شامل کر دیا گیا۔
یہ اس فلم کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ اس لحاظ سے آپ اسے ’کلیاتِ منٹو‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔
اور یہی اس فلم کی سب سے بڑی خامی بھی ہے۔ اگر فیچر فلم کی بجائے منٹو پر کئی قسطوں کا ٹی وی سیریئل بنتا، جیسا گلزار نے مرزا غالب پر بنایا تھا، تو شاید بات بن جاتی۔ چنانچہ ’ہتک‘ اور ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ جیسے عظیم افسانوں کو دو ڈھائی منٹوں میں نمٹانا پڑا۔
فلم نے یہ فرض کر لیا کہ اسے دیکھنے والے ہر شخص نے منٹو کے افسانے ضرور پہلے سے پڑھ رکھے ہوں گے۔ اگر کس نے نہیں پڑھے تو سینیما ہال میں بیٹھے بیٹھے اسے ایک ایسی ٹرین میں سفر کرنے کا مزا آیا ہو گا جو برق رفتاری سے مختلف سٹیشنوں پر چند سیکنڈوں کے لیے رکتی چلی جاتی ہے، لیکن سواریوں کو اس کی مہلت نہیں دیتی کہ وہ تھوڑی دیر کو پلیٹ فارم پر اتر کر ٹانگیں سیدھی کر لیں۔
ایک فلم کے اندر کئی چھوٹی چھوٹی فلمیں ہیں، جن میں سے ’پشاور سے لاہور‘ غالباً سب سے کامیاب کوشش ہے
ٹرین کا ذکر آیا ہے تو فلم کے اندر چھوٹی چھوٹی کئی فلموں میں سے ایک منٹو کے افسانے ’پشاور سے لاہور‘ پر مبنی ہے، جس میں عنوان کے مطابق کراچی سے لاہور تک کا ٹرین کا سفر دکھایا گیا ہے۔
اس میں ایک لڑکے کو زنانہ ڈبے میں بیٹھی ایک حسین لڑکی سے عشق ہو جاتا ہے اور وہ ہر سٹیشن پر اتر کر اس کے لیے چیزیں خریدتا ہے، اور اس دوران اپنے ذہن میں کئی خواب بھی بن لیتا ہے، لیکن لاہور پہنچ کر کھلتا ہے وہ لڑکی دراصل طوائف ہے۔
اس مِنی فلم کی کہانی کو ایک گانے کے اندر بلیک اینڈ وائٹ فوٹوگرافی کی مدد سے اس طرح سے فلم بند کیا گیا ہے جیسے آپ بالی وڈ کی 50 کی دہائی کی کوئی عمدہ فلم دیکھ رہے ہیں۔
’پشاور سے لاہور‘ منٹو کے عظیم افسانوں میں شمار نہیں ہوتا، لیکن یہ بات کسی بھی صورت ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ یا ’ہتک‘ کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی جو منٹو کے دو اعلیٰ ترین افسانے ہیں۔ ان دونوں افسانوں کو جس طرح دو تین منٹ میں نمٹایا گیا اس سے ایک ہی تاثر ابھرتا ہے، تشنگی، تشنگی۔
شاہد ندیم کو معلوم تھا کہ منٹو کے بعض خاکے ان کے بڑے افسانوں سے کم نہیں ہیں۔ انہی میں سے ایک ’نورِ جہاں سرورِ جہاں‘ ہے جس میں منٹو نے کسی سرجن کے نشتر کی طرح سارے ملمع کاٹ کر اصل ملک? ترنم کی ذات تک رسائی دی ہے۔
فلم ’منٹو‘ میں اس خاکے کے محض چند جملے ہی استعمال ہو سکے، تاہم فلم کے سیٹ، شوٹنگ اور نورجہاں کا اپنے گانے ’چاندنی راتیں‘ پر رقص فلم کے ناظر کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتے ہیں۔
یہ تو ہو گیا فن، اب آئیے شخصیت کی جانب۔ منٹو نے پاکستان آ کر برف کے کارخانے کا لائسنس لیا تھا لیکن وہ ان سے چلا نہیں۔ اس کو فلم میں پیش کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بےچارے قدرت اللہ شہاب کو رگید دیا گیا ہے جنھوں نے اپنی طرف سے غالباً منٹو کی مدد کرنے کی کوشش کی تھی۔
فلم کی کاسٹ میں درجنوں اداکار شامل ہیں جن میں سے اکثر چند لمحوں ہی کے لیے سکرین پر آتے ہیں
اور اب نسبتاً زیادہ سنگین موضوعات آ جاتے ہیں، جن میں پہلے منٹو پر فحش نگاری کے الزام میں چلنے والے مقدمے ہیں۔
منٹو پر کل نصف درجن مقدمے چلے، آدھے متحدہ ہندوستان اور آدھے پاکستان میں۔ ’منٹو‘ میں ان مقدموں اور منٹو کی پیشیاں بھگتنے کا تکلیف دہ عمل ضرور دکھایا گیا ہے لیکن اس ضمن میں سوائے ایک آدھ خود کلامی کے کسی قسم کے دلائل نہیں پیش کیے گئے کہ منٹو کو کیوں فحش نگار نہ سمجھا جائے۔ لیکن شاید یہ کسی اور فلم کا سکرپٹ ہے۔
منٹو کی زندگی کا تصور کرتے ہوئے ان کی مریضانہ شراب نوشی کا تصور آنا لازمی ہے۔ چنانچہ فلم کے آخری حصے کو اسی مقصد کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔
’منٹو کی آگ پھیلا دی‘
منٹو اور خدا
ثانیہ سعید، جو بقیہ فلم میں پس منظر میں تھیں، یہاں بھرپور طریقے سے سامنے آتی ہیں۔ انھوں نے منٹو کی اہلیہ صفیہ کا مشکل کردار بہت دیانت داری اور ہمدردی سے نبھایا ہے۔ اس حصے میں اگر سرمد کھوسٹ کی اوور ایکٹنگ اور منٹو کی ہمزاد کی دخل در معقولات کو نظرانداز کر دیا جائے تو یہ فلم کا سب سے عمدہ اور سب سے پرکشش حصہ بنتا ہے۔
تکنیکی طور پر فلم کا معیار خاصا بلند ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم مسئلہ چھوٹے بجٹ کے ساتھ 50 کی دہائی کو پیش کرنا تھا، جس میں پروڈکشن یونٹ کو خاصی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ البتہ دو تین جگہ چوک بھی ہو گئی۔ مثلاً فلم میں دو بار منٹو کی تحریریں نوری نستعلیق میں لکھی ہوئی دکھائی گئیں۔ یہ کمپیوٹر فانٹ منٹو کے مرنے کے کوئی 40 سال بعد عام ہونا شروع ہوا تھا۔
سو مجموعی طور پر فلم کی تمام ٹیم اپنی مہم جوئی اور جرات مندی پر داد کی مستحق ہے۔ وہ منٹو کا مکمل طور پر احاطہ نہیں کر سکی، لیکن انھیں کوشش کے نمبر ضرور ملنے چاہییں، جو ہال کے کھچا کھچ بھرا ہونے کی صورت میں انھیں مل بھی رہے ہیں۔
( بشکریہ mantothefilm.com) بی بی سی اردو



کالم



23 سال


قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…