بدھ‬‮ ، 25 دسمبر‬‮ 2024 

ترقیاتی منصوبوں کیلئے مجموعی طور پر 1150 ارب روپے ،ملکی دفاع کیلئے 1804 ارب روپے  مختص، غریب عوام کیلئے بڑے ریلیف کا اعلان

datetime 9  جون‬‮  2023
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے آئندہ مالی سال2023-24کا145 کھرب کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جس میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے مجموعی طور پر 1150 ارب روپے ،ملکی دفاع کیلئے 1804 ارب روپے مختص،سول انتظامیہ کے اخرجات کیلئے 714ارب روپے رکھے گئے ہیں،اگلے مالی سال کیلئے جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف 3.5 فیصد،ایف بی آر کے ٹیکس ریونیو کا تخمینہ 9200 ارب روپے لگایا گیا ہے،وفاقی نان ٹیکس محصولات 2963 ارب روپے کے ہوں گے،

وفاقی حکومت کی کل آمدن68 کھرب 87 ارب روپے ہوگی،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35فیصد تک اضافہ ،کم از کم اجرت 32ہزار روپے ،ای او بی آئی کے ذریعے پنشن حاصل کرنے والے پنشنرز کی کم سے کم پنشن کو 8500 روپے سے بڑھا کر 10ہزار روپے کرنے کی تجویز ،پرائم منسٹر یوتھ لون کیلئے 10 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے ،بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 260 ارب سے بڑھا کر 400 ارب کردیا گیا،معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم،کان کنی کیلئے درکار مشینری، رائس مل کی مشینری اور مشین کے آلات کیلئے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ اور 50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 30 ارب روپے مختص کر نے کی تجویز دی گئی ،

انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی)اور اس سے متعلقہ سروسز کے برآمد کنندگان کیلئے آئی ٹی آلات کی ڈیوٹی سے مستثنیٰ درآمد کی اجازت دیکر ان کی برآمدی آمدنی کے ایک فیصد کی قیمت کے برابر کرنے ،سابقہ فاٹا کے علاقوں سے درآمد کی گئی مشینری اور آلات پر چھوٹ میں جون 2024 تک توسیع کی تجویز دے دی گئی ،معاشرے کے غریب طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے استعمال شدہ (سیکنڈ ہینڈ)کپڑوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ،انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے اس سے منسلک آلات سے ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے اور فلیٹ پینلز، مانیٹرز اور پروجیکٹرز کے پارٹس پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے خاتمے کی تجویز ،کمرشل امپورٹرز درآمد کنندگان کے لیے اشیا کی درآمد پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں 0.5 فیصد اضافہ کیا گیا ،

ہیوی کمرشل وہیکلز کے نان لوکلائزڈ (سی کے ڈی)پر کسٹم ڈیوٹی کو 10 فیصد سے کم کر کے فیصد کرنے کی تجویز ،بینک سے 50 ہزار نکالنے والے نان فائلر کیلئے ٹیکس میں اضافہ ،ترسیلات زر کے ذریعے غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر 2 فیصد ٹیکس ختم کر نے کی تجویز دی ہے جبکہ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہاہے کہ رواں سال کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جارہا ہے ،حکومت کی کوشش ہے ملک میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے،روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں اور کاروبار میں آسانیاں لائی جائیں،آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کر لیا ہے، باقاعدگی سے مذاکرات جاری ہیں، ہماری ہرممکن کوشش ہے جلد ایس ایل اے پر دستخط ہوں اور نواں جائزہ مکمل ہوجائے۔

جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا جس میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے آئندہ مالی سال 2023-24کا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے کہاکہ بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل کرنے پر خدا کا شکر گزار ہوں۔ انہوںنے مالی سال 24-2023 کے بجٹ کے اعداد و شمار پیش کرنے سے پہلے 2017 میں نواز شریف کی حکومت اور 2022 میں پی ٹی آئی کی نااہل حکومت کے بجٹ کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے مالی سال 17-2016 میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو 6.1 فیصد تک پہنچ چکی تھی، مہنگائی 4 فیصد تھی، غذائی اشیا کی مہنگائی صرف 2 فیصد تھی، پالیسی ریٹ ساڑھے 5 فیصد، اسٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں نمبر ون اور پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر تھی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن تھی اور پاکستان 2020 تک جی-20 ممالک میں شامل ہونے والا تھا، پاکستانی کرنسی مستحکم اور زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر تھے، بجلی کے نئے منصوبوں سے 12-16 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ سے نجات مل چکی تھی، انفرااسٹرکچر، روزگار کے مواقع اور آسان قرضوں جیسے عوام دوست منصوبوں کی تکمیل کی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاچکا تھا، ملک میں امن و امان اور سیاسی استحکام تھا، ان حالات میں آناً فاناً سازشوں کے جال بچھا دیے گئے، اگست 2018 میں ایک سلیکٹڈ حکومت وجود میں آئی، اس سلیکٹڈ حکومت کی ناکام معاشی کارکردگی کے سبب پاکستان 24ویں بڑی معیشت کے درجے سے گر کر 47 ویں نمبر پر آگیا۔

انہوں نے کہا کہ آج پاکستان تاریخ کے مشکل ترین مراحل سے گزر رہا ہے، خراب معاشی صورتحال کی ذمہ دار پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت ہے، اس لیے مالی سال 22-2021 تک کی معاشی صورتحال کا ایک جائزہ ایوان کے سامنے رکھونگا۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی غلط معاشی حکمت عملی کے باعث کرنٹ اکائونٹ خسارہ 17.5 ڈالر تک پہنچ گیا اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے تھے، آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل پاکستان کیلئے اہم تھی لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اس صورتحال کو جان بوجھ کر خراب کیا۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی دی، ایسے اقدامات اٹھائے جو آئی ایم ایف شرائط کی صریحاً خلاف ورزی تھی، سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ نے 2 صوبائی وزارئے خزانہ کو فون کر کے آئی ایم ایف پروگرام سبوتاژکروانے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے نئی حکومت کیلئے بارودی سرنگیں بچھائی گئیں جس سے نہ صرف مالی خسارے میں اضافہ کیا بلکہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے تعلقات کو بھی نقصان پہنچایا۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی معاشی حکمت عملی کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت مالی خسارے میں خطرناک حد تک اضافہ تھا، مالی سال 22-2021 کا خسارہ جی ڈی پی کے 7.89 فیصد کے برابر ہے جبکہ پرائمری خسارہ جی ڈی پی کے 3.1 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ جون 2018 میں پاکستان کا قرضہ تقریباً 250 کھرب تھا، پی ٹی آئی کی معاشی بے انتظامی کے سبب یہ قرض مالی سال 22-2021 میں 490 کھرب تک پہنچ گیا، 4 سالہ دور میں اتنا قرض لیا گیا جو 1947 سے 2018 تک لیے جانے والے قرض کا 96 فیصد تھا۔

اسحٰق ڈار نے بتایا کہ اسی طرح قرضے اور واجبات اسی عرصے میں 100 فیصد سے بڑھ کر 300 کھرب سے 600 کھرب روپے تک پہنچ گیا، جون 2018 میں غیر ملکی قرضے اور واجبات 95 ارب ڈالر تھے جوکہ جون 2022 تک 130 ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو 2013 میں 503 ارب روپے کا گردشی قرضہ ورثے میں ملا جو 208 تک بڑھ کر 1148 ارب روپے پر پہنچ گیا، پی ٹی آئی کے 4 سالہ دور میں یہ 1319 ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 2467 ارب روپے پر پہنچ گیا۔انہوںنے کہاکہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے خسارے کو کم کرنے کے لیے کفایت شعاری سے کام لیا اور اخراجات میں کمی گئی،

ان اقدامات کے نتیجے میں بجٹ خسارہ پچھلے مالی سال میں جی ڈی پی کے 7.9 فیصد سے کم ہوکر رواں مالی سال میں جی ڈی پی کا 7.0 فیصد ہوگیا، بنیادی خسارے کو صرف ایک سال کی مدت کے دوران جی ڈی پی کے 3.1 فیصد سے کم کرکے 0.5 فیصد پر لایا گیا۔انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کو ایک سال کے دوران کئی اندرونی اور بیرونی چینلجز کا سامنا کرنا پڑا، سیلاب کے سبب معاشی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے۔انہوںنے کہاکہ اقوام متحدہ کے ادارے ’ایف اے او‘ کے تخمینے کے مطابق سال 2021 کے برعکس سال 2022 کے دوران عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 14.3 فیصد کا اضافہ ہوا، تیل، گندم، دالیں، خوردنی تیل اور کھاد کی ہمیں زرمبادلہ میں ادائیگی کرنا پڑی جو مہنگائی میں اضافے کا باعث بنا، یوکرین جنگ، عالمی سطح پر تیل و گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور مغربی ماملک میں شرح سود میں اضافے نے ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ کیا۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ موجودہ حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں گرواٹ کو کم کیا گیا ہے، حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کر لیا ہے، باقاعدگی سے مذاکرات جاری ہیں، ہماری ہرممکن کوشش ہے کہ جلد ایس ایل اے پر دستخط ہوں اور نواں جائزہ مکمل ہوجائے۔انہوں نے کہا کہ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے چند ماہ قبل بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دیے جانے والے کیش ٹرانسفر میں 25 فیصد تک اضافہ کردیا ہے، بجٹ کو 260 ارب سے بڑھا کر 400 ارب کردیا گیا ہے، اس کا اطلاق یکم جنوری 2023 سے ہوچکا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ مفت آٹے کی تقسیم کی گئی، سستی اشیا کی فراہمی کیلئے 26 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، گزشتہ ایک ماہ میں حکومت نے 2 مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کی، امید ہے اس کے نتیجے مہنگائی میں کمی آئے گی۔انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال اندرونی اور بیرونی مشکلات کے سبب بڑی صنعتوں کی پیداوار میں منفی گروتھ کا رجحان رہا، اس کی بڑی وجہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا رجحان تھا، جس کے سبب خام مال کی دستیابی میں مشکلات پیدا ہوئیں، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خام مال کو ترجیحی بنیاد پر ایل سی کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے، حکومت اگلے مالی سال اس رجحان کو ریورس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ صنعتی شعبے پر آئندہ سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، اسی طرح عالمی منڈیوں می قیمتوں میں گراوٹ، ترقی یافتہ ممالک میں انوینٹری میں کمی اور ملک میں خام مال کی بہتر دستیابی کی وجہ سے ایل ایس ایم میں بہتری آئے گی۔انہوں نے کہا کہ اب میں آپ کو بجٹ مالی سال 24-2023 کی عمومی سمت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں، معیشت میں بہتری کی سمت کے باوجود ابھی بھی چیلنجز کا سامنا ہے، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے آئندہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا ہدف صرف 3.5 فیصد رکھا ہے جوکہ ایک مناسب ہدف ہے۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ جلد ہی ملک عام انتخابات کی طرف جانے والا ہے، اس کے باوجود اگلے مال سال کے بجٹ کو ایک الیکشن بجٹ کی بجائے ایک ذمہ دارانہ بجٹ کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے بھرپور مشاورت کے بعد خاص طور پر معیشت کے ان چیدہ نکات کو منتخب کیا ہے جن کی بدولت ملک کم سے کم مدت میں ترقی کی راہ پر دوبارہ گامزن ہوسکتا ہے، بجٹ تجاویز میں ہمارے ترجیحی ڈرائیورز آف گروتھ مندرجہ ذیل ہیں جن میں زراعت کا شعبہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اگلے مالی سال میں اس شعبے کیلئے کئی اقدامات کرنے کی تجاویز ہیں۔ انہوںنے کہاکہ زرعی قرضوں کی حد کو رواں مالی سال میں 1800 ارب سے بڑھا کر 2250 ارب روپے کردیا گیا ہے،بجلی، ڈیزل کے بل کسان کے سب سے بڑے اخراجات میں شامل ہیں اگلے مالی سال میں 50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ معیاری بیج کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ان کی درا?مد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کی جا رہی ہیں، اسی طرح سیپلنگس کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔انہوںنے کہاکہ موسمی تبدیلی کی وجہ سے فصل کی کاشت کی مدت کم سے کم ہوتی جا رہی ہے، اگر کسان نے تیسری فصل اٹھانی ہے تو اس کے لیے کمبائی ہارویسٹنگ کی ضرورت ہے، کمبائن ہارویسٹنگ کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ان پر تمام ڈیوٹی و ٹیکسز ختم کرنے کی تجویز ہے۔انہوں نے کہاکہ چاول کی پیداوار بڑھانے کے لیے سیڈر، رائس پلانٹر اور ڈرائیرز کو بھی ڈیوٹی و ٹیکسز سے استثنیٰ دینے کی تجویز ہے۔انہوں نے کہاکہ بجٹ میں ایگرو انڈسٹری کو کنسیشنل قرض کی فراہمی کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ زرعی اجناس کی ویلیو ایڈیشن کے لیے دیہی علاقوں میں لگائے جانے والے ایگرو بیسڈ انڈسٹریل یونٹس کو تمام ٹیکسز سے 5 سال کے لیے مکمل استثنیٰ حاصل ہوگا۔انہوںنے کہاکہ پی ایم یوتھ، بزنس اینڈ ایگریکلچر لان اسکیم کے لیے اگلے مالی سال میں مارک اپ سبسڈی کے لیے 10 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔انہوںنے کہاکہ درآمدی یوریا کھاد پر سبسڈی کے لیے اگلے سال کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔انہوںنے کہاکہ چھوٹے کسانوں کو کم مارک اپ پر صوبائی حکومتوں کی شراکت سے قرضہ جات فراہم کیے جائیں گے، اس مد میں 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔اسحق ڈار نے کہاکہ آئی ٹی اینڈ آئی ٹی ان ایبل سروسز معیشت کا سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا شعبہ ہے، پاکستان اپنا کاروبار کرنے والے فری لانسر کے اعتبار سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے،

آئی ٹی برآمدات بڑھانے کے لیے صفر.25 فیصد کی رعایتی شرح لاگو ہے، یہ سہولت جون 2026 تک جاری رکھی جائے گی۔فری لانسرز کے لیے 24 ہزار ڈالر تک سالانہ کی ایکسپورٹ پر فری لانسر کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، اس کے علاوہ ان کیلیے ایک سادہ سنگل پیج انکم ٹیکس ریٹرن کا اجرا کیا جا رہا ہے،آئی ٹی اینڈ آئی ٹی ان ایبل سروسز کو اپنی برآمدات کے ایک فیصد کے برابر مالیت کے ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر بغیر کیس ٹیکس کے درآمد کرسکیں گے، ان درآمدات کو حد 50 ہزار ڈالر سالانہ مقرر کی گئی ہے،آئی سروسز اور آئی کے برآمدات کنندگان کیلئے آٹومیٹڈ ایگزیمشن سرٹیفکیٹ جاری کرنے کو یقینی بنایا جائے گا۔ انہوںنے کہاکہ آئی ٹی شعبہ ایس ایم ای کا درجہ دیا جا رہا ہے، جس سے اس شعبے کو کنسیشنل انکم ٹیکس ریٹس کا فائدہ ملے گا،آئی ٹی کاروبار کی مانیٹرنگ کے لیے وینچر کپیٹل کی بہت اہمیت ہے، بجٹ میں 5 ارب روپے سے کاروباری سرمائے کی فراہمی کے لیے حکومتی وسائل سے وینچر کپیٹل کا قیام کیا جائیگا۔

انہوں نے کہاکہ وینچر کپیٹل آئی سی ٹی کی حدود میں آئی ٹی سروسز پر سیلز ٹیکس کی موجودہ شرح کو 15 فیصد سے کم کرکے 5 کیا جا رہا ہے۔انہوںنے کہاکہ آئی ٹی کے شعبے میں قرضوں کی فراہمی کے لیے بینکوں کو 20 فیصد رعایتی ٹیکس کا استفادہ حاصل ہوگا،اگلے مالی سال میں 50 ہزار آئی ٹی گریجوایٹس کو پیشہ روانہ ٹریننگ دی جائے گی،ایس ایم ای کی نشوو نما کے لیے درج ذیل اقدامات کیے گئے ہیں۔انہوںنے کہاکہ کنسٹرکشن، زراعت اور ایس ایم ای کی حوصلہ افزائی کے لیے ان شعبوں کو قرض فراہم کرنے والے بینکوں کو ایسے قرضوں سے ہونے والی آمدنی پر 39 فیصد کے بجائے 20 فیصد کنسیشنل ٹیکس کی سہولت اگلے 2 مالی سال تک میسر ہوگی۔انہوںنے کہاکہ ایس ایم ایز کے ٹیکس مراعات کو بڑھا کر اس کا ٹرن اوور تھریشولڈ کو 25 کروڑ سے بڑھا کر 80 کروڑ روپے کیا جا رہا ہے۔

انہوںنے کہاکہ پی ایم یوتھ لان پروگرام کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ اسٹیٹ بینک کی ایک اسکیم کے تحت ایس ایم ای کے قرضوں کو صرف 6 فیصد مارک اپ پر ری فنانس کیا جا سکتا ہے لیکن بینک ایس ایم ای کو کریڈٹ ہسٹری نہ ہونے کی وجہ سے ایسے قرضے دینے سے ہچکچاتے ہیں، یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس رکارٹ کو دور کرنے لیے اس مد میں نئے قرضوں کا 20 فیصد تک رسک حکومت اٹھائے گی۔انہوںنے کہاکہ ایس ایم ای آسان فنانس اسکیم کو دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے،ایس ایم ای کے لیے علیحدہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے قیام کی تجویز ہے،برآمدات کی ترویج کے لیے درج ذیل اقدمات کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ وزیراعظم کی سربراہی میں ایکسپورٹ کونسل آف پاکستان کا قیام کیا جا رہا ہے،منرلز اور میٹلز کی برآمد کی ترویج کے لیے کسی بھی آن لائن مارکیٹ پلیس کے ذریعے کسی بھی مقامی خریداری پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ دی جائے گی،ایکسپورٹ فسیلیٹیشن اسکیم کا اجرا کیا جا چکا، اس کے تحت برآمدات کی سہولیات میں اضافہ کیا جائے گا،تمام لسٹڈ کمپنیز پر کم از کم ٹیکس 1.25 فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کردیا گیا ہے،ٹیکسٹائل انڈسٹری کو فروغ دینے لیے مقامی طور پر تیار ہونے والے سنتھیٹک فلامینٹ یارن پر 5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے، اسی طرح پیٹ اسکریپ پر کسٹم ڈیوٹی کو 20 فیصد سے کم کرکے 11 فیصد کیا جا رہا ہے، کیپیسیٹرز، ایڈہیسو ٹیپ، ماننگ مشینری، رائس مل مشینری اور مشین ٹولز کے مینوفیکچرنگ کو بھی کسٹم ڈیوٹی سے استثنی دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ زر مبادلہ کی فارمل چینلز کے ذریعے اضافے کے لیے بھی کئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر کے ذریعے غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر موجودہ فائنل 2 فیصد ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے۔انہوںنے کہاکہ رمٹینس کارڈ کی کیٹیگری میں ایک نئے ڈائمنڈ کارڈ کا اجرا کیا جا رہا ہے جو کہ سالانہ 50 ہزار ڈالر سے زائد ترسیلات بھیجنے والوں کو جاری کیا جائے گا۔انہوںنے کہاکہ تعلیم کے شعبے میں مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے کرنٹ اخرجات میں 65 ارب اور ترقیاتی اخراجات کی مد میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پاکستان انڈومینٹ فنڈ کے لیے بجٹ میں 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں،لیٹ ٹاپ اسکیم کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اسکول، کالج اور پروفیشنل کھیلوں میں ترقی کے لیے 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔بجٹ میں وویمن امپارومنٹ کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، کاروباری خواتین کے لیے ٹیکس کی شرح میں بھی چھوٹ دی گئی ہے،نوجوانوں کی جانب سے شروع کیے جانے والے کاروبار سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس کی شرح 50 فیصد تک کم کرنے کی تجویز ہے، یہ رعایت انفرادی یا اے او پی کی صورت میں بیس لاکھ روپے تک اور کمپنی کی صورت میں 50 لاکھ روپے تک ہوگی،وزیر اعظم یوتھ پروگرام اسمال لان کے تحت رعایتی ریٹ پر قرض فراہمی کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں،وزیر اعظم یوتھ اسکلز پروگرام کے تحت اسپیشلائزڈ ٹریننگ دینے کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…