جنوبی وزیرستان(آن لائن)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جب ملک کے سربراہ ڈاکوہوں تو وہ ترقی نہیں کرسکتا،ریاست مدینہ ایک دم نہیں بن گئی تھی ،آہستہ آہستہ تبدیلی آئی،عوام سے سچ بولوں گا وہ یہ امید نہلگائے کہ دو سال میں پاکستان میں انقلاب آجائیگا، جنرل مشرف دبائو برداشت نہ کرسکے اورانہوںنے کرپٹ لوگوں کے
سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور این آر او دیدیاحالانکہ وہ اس وقت آرمی چیف کیساتھ ملک کے صدر بھی تھے ،نیب ان کے نیچے کام کرتا تھا،جو ریاست قانون پرکوئی سمجھوتہ نہ کرے اسی کو تبدیلی کہتے ہیںجو اب آچکی ہے ،ہم مشکل سے نکل رہے ہیں اور نیا دور شروع ہو رہا ہے اور انصاف کی تحریک شروع ہو رہی ہے۔قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں قبائلی عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ آزاد لوگ ہی آزاد فیصلے کرتے ہیں، جس کو جاگیرداری نظام کہتے ہیں وہاں لوگوں کی حیثیت نہیں ہوتی لیکن صدیوں پرانے جرگہ نظام میں مشاورت سے سب فیصلے ہوتے ہیں۔ یہاں ہمیشہ لوگوں نے اپنی آزادی کے لیے جنگ لڑی اور انگریزوں کے خلاف محسود علاقوں نے سب سے زیادہ جنگ لڑی اور شہادتیں دیں اور جب کشمیر میں ظلم ہو رہا تھا یہاں سے لوگ گئے اور انہوں نے جان کی قربانی دی سب سے پہلے اعتراف کرتا ہوں کہ یہ علاقے پاکستان کے دیگر علاقوں سے پیچھے رہ گئے ہیں، قبائلی علاقے اور بلوچستان کے علاقے بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ یہاں ترقیاتی کاموں کے لیے بہت زیادہ پیسوں کی ضرورت ہے کیونکہ علاقے بڑا ہے اور مسائل زیادہ ہیں، تعلیم کے مسائل ہیں، ہسپتال بنانے ہیں اور ایک ہسپتال 2016 سے زیرتعمیر تھا جو اب مکمل ہوا ہے۔ ان علاقوں میں کوئی بھی آپ سے
وعدہ کرے کہ میں آپ کے مسئلے حل کردوں گا تو وہ آپ سے سچ نہیں بول رہا ہے، آپ کے حالات مشکل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک علاقہ 70 سال سے پیچھے رہ گیا ہے تو یہ امید نہ لگانا کہ دو سال میں ایک دم انقلاب آئے گا، میں آپ سے سچ بولوں گا اور میں کوئی ایسا وعدہ نہیں کروں گا جو پورا نہ کرسکوں۔وزیراعظم نے کہا کہ لوگ
مجھے کہتے ہیں کدھر گیا نیا پاکستان اور مدینے کی ریاست کہاں گئی، میں ان سے کہتا ہوں کہ اسلام کی تاریخ پڑھیں، کیا ایک دم مدینے کی ریاست بنی تھی، 4،5 سال اس ریاست نے بڑا مشکل وقت گزارا، امت جنگ احد اور خندق میں خطرے میں تھی اور بڑی مشکل سے نکلی لیکن آہستہ آہستہ تبدیلی آئی۔انہوں نے کہ دو طرح کی تبدیلی
آئی، وہ نئے قانون لے کر آئے، قانون کی بالادستی، انصاف کا نظام لے کر آئے پھر فلاحی ریاست بنائی اور نچلے طبقے کو اوپر اٹھایا، وقت لگا اور دنیا جہاں بادشاہت کی طرف جارہی تھی اس کا رخ موڑ دیا۔ان کا کہنا تھا کہ مشکلات آئیں اور پھر دیکھتے دیکھتے دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب آیا اور آج پاکستان میں وہ جدوجہد
ہورہی ہے، پاکستان میں اس انقلاب کی شروعات تو ہوچکی ہیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ جب ایک معاشرے کے بڑے بڑے ڈاکو سب اکٹھے ہوجاتے ہیں اور ایک حکومت کہتی ہے میں نے این آر او نہیں دینا، جنرل پرویز مشرف فوج اس کے نیچے، آرمی چیف، ملک کا صدر، امریکا اس کے ساتھ، جج اور نیب اس کے نیچے لیکن وہ دبا
برداشت نہ کر سکا اور دو مرتبہ این آر او دیا اور اس تبدیلی اس طرح آتی ہے کہ ریاست کھڑی ہو کر کہتی ہے کہ قانون کے اوپر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ جب ایک ملک کے اندر بڑے بڑے ڈاکو ملک کی سربراہی کرتے ہیں تو وہ ملک ترقی نہیں کر سکتا اور خوش حال نہیں ہو سکتا۔ ہم مشکل حالات سے نکل رہے ہیں، آج پاکستان پر تاریخی
قرضے چڑھے ہوئے ہیں اور ہم اس سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں، ملک کو صحیح راستے پر لے کر آرہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ قانون کی بالادستی کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرتا جہاں طاقت ور کے لیے ایک قانون اور کمزور کے لیے دوسرا قانون ہو، ہمارے لیے ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے۔عمران خان نے کہا کہ یہ دور جس پر میرا نظریہ انصاف کی تحریک شروع ہو رہی ہے، اصلاحات تکلیف دہ ہوتی ہیں۔