جمعرات‬‮ ، 14 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

قائداعظم اور علامہ اقبال 1950ءتک حیات ہوتے تو یہ بھی اسرائیل کے ایشو پر”ری تھنک“ ضرور کرتے‘ کیا پھر ہم مصر‘ اردن اور ترکی سے زیادہ بڑے مسلمان ہیںکیا ترکی اسرائیل کو تسلیم کر کے دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا تھا؟جاوید چودھری کے فکر انگیز انکشافات

datetime 25  اگست‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’بات اسی طرف جارہی ہے ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔اتاترک نے بھی فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ تسلیم نہیں کیا تھا لہٰذا ہم نے بھی انکار کر دیا‘ برطانیہ نے 1948ءمیں فلسطین پر اپنا قبضہ چھوڑ دیا اور یہودیوں نے اسرائیل کے نام سے ملک بنا لیا‘ روس‘ امریکااور یورپ نے اسے فوراً تسلیم کر لیا‘ ترکی نے بھی 1949ءمیں اسرائیل کو مان لیا‘

اب سوال یہ ہے اگر قائداعظم اور علامہ اقبال 1949ءمیں حیات ہوتے تو کیا وہ اپنے آپ کو” ری پوزیشن“ کرتے یا پرانے موقف پر قائم رہتے؟ میرا خیال ہے یہ بھی اپنی پوزیشن بدل لیتے؟آپ یہ جان کر بھی حیران ہوں گے ذوالفقار علی بھٹو کے دور تک پاکستان میں یہودی تھے اور یہ عبادت کے لیے باقاعدہ اسرائیل بھی جاتے تھے اور ریاست کو ان کی آمدورفت پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا لیکن پھر 1967ءمیں عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی‘ مسلم امہ اکٹھی ہو گئی‘ او آئی سی نے جنم لیا اور پاکستان سمیت 57 اسلامی ملک اسرائیل کے خلاف اکٹھے ہو گئے‘ 1973ءمیں عربوں اور اسرائیل کے درمیان یوم کپور جنگ ہوئی‘ ذوالفقار علی بھٹو نے عرب ملکوں میں پاکستانی ورکرز بھجوانا شروع کیے تھے چناں چہ انہوں نے اسرائیل پر عربوں سے بھی سخت سٹینڈ لے لیا۔جنرل ضیاءالحق بھٹو صاحب سے بھی چند قدم آگے بڑھ گئے اور یوں اسرائیل پر پاکستان کا موقف اٹل ہو گیا‘ اس دوران وہ عرب ممالک جن کی زمینوں پر اسرائیل قائم ہوا تھا انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کر نا شروع کر دیا لیکن ہم 3292کلو میٹر کے فاصلے پر بیٹھ کر انکار کرتے رہے‘ ہم نے اسے دو ملکوں کے بجائے اسلام اور کفر کا تنازع بھی بنا دیا‘یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے یہ اگر واقعی کفر اور اسلام کا ایشو ہے توکیا پھر ہم مصر‘ اردن اور ترکی سے زیادہ بڑے مسلمان ہیں اور کیا ترکی اسرائیل کو تسلیم کر کے دائرہ اسلام سے

خارج ہو گیا تھا؟جی نہیں! یہ ملک آج بھی ہم سے زیادہ مسلمان ہیں لہٰذا یہ پھر مذہب کی بجائے سفارتی اور سیاسی ایشو ہے اور سیاست اور سفارت میں کوئی چیز قطعی نہیں ہوتی‘ ان کا فیصلہ ہمیشہ حالات کرتے ہیں مثلاً ہم اگر علامہ اقبال اور قائداعظم کی مثال ہی لے لیں تو ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا “بھی علامہ اقبال نے لکھا تھا اور قائداعظم بھی 1920ءتک ہندو مسلم بھائی بھائی کے حامی تھے‘

یہ کانگریس میں بھی رہے تھے لیکن پھر حالات نے علامہ اقبال اور قائداعظم دونوں کو دو قومی نظریے کا داعی بنا دیا۔یہ دونوں ری تھنکنگ پر مجبور ہو گئے چناں چہ میرا خیال ہے اگر قائداعظم اور علامہ اقبال 1950ءتک حیات ہوتے تو یہ بھی اسرائیل کے ایشو پر”ری تھنک“ ضرور کرتے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ قدم انہوں نے ترکی کی محبت اور برطانیہ کی نفرت میں اٹھایا تھا اور برطانیہ نے 1948ءمیں فلسطین چھوڑ دیا تھا اور ترکی نے 1949ءمیں فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا تھا‘ترکی کے بعد ایران نے 1950ء(ایرانی انقلاب کے بعدایران اسرائیل تعلقات ختم ہو گئے)ء

موضوعات:



کالم



23 سال


قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…