قائداعظم اور علامہ اقبال 1950ءتک حیات ہوتے تو یہ بھی اسرائیل کے ایشو پر”ری تھنک“ ضرور کرتے‘ کیا پھر ہم مصر‘ اردن اور ترکی سے زیادہ بڑے مسلمان ہیںکیا ترکی اسرائیل کو تسلیم کر کے دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا تھا؟جاوید چودھری کے فکر انگیز انکشافات

25  اگست‬‮  2020

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’بات اسی طرف جارہی ہے ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔اتاترک نے بھی فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ تسلیم نہیں کیا تھا لہٰذا ہم نے بھی انکار کر دیا‘ برطانیہ نے 1948ءمیں فلسطین پر اپنا قبضہ چھوڑ دیا اور یہودیوں نے اسرائیل کے نام سے ملک بنا لیا‘ روس‘ امریکااور یورپ نے اسے فوراً تسلیم کر لیا‘ ترکی نے بھی 1949ءمیں اسرائیل کو مان لیا‘

اب سوال یہ ہے اگر قائداعظم اور علامہ اقبال 1949ءمیں حیات ہوتے تو کیا وہ اپنے آپ کو” ری پوزیشن“ کرتے یا پرانے موقف پر قائم رہتے؟ میرا خیال ہے یہ بھی اپنی پوزیشن بدل لیتے؟آپ یہ جان کر بھی حیران ہوں گے ذوالفقار علی بھٹو کے دور تک پاکستان میں یہودی تھے اور یہ عبادت کے لیے باقاعدہ اسرائیل بھی جاتے تھے اور ریاست کو ان کی آمدورفت پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا لیکن پھر 1967ءمیں عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی‘ مسلم امہ اکٹھی ہو گئی‘ او آئی سی نے جنم لیا اور پاکستان سمیت 57 اسلامی ملک اسرائیل کے خلاف اکٹھے ہو گئے‘ 1973ءمیں عربوں اور اسرائیل کے درمیان یوم کپور جنگ ہوئی‘ ذوالفقار علی بھٹو نے عرب ملکوں میں پاکستانی ورکرز بھجوانا شروع کیے تھے چناں چہ انہوں نے اسرائیل پر عربوں سے بھی سخت سٹینڈ لے لیا۔جنرل ضیاءالحق بھٹو صاحب سے بھی چند قدم آگے بڑھ گئے اور یوں اسرائیل پر پاکستان کا موقف اٹل ہو گیا‘ اس دوران وہ عرب ممالک جن کی زمینوں پر اسرائیل قائم ہوا تھا انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کر نا شروع کر دیا لیکن ہم 3292کلو میٹر کے فاصلے پر بیٹھ کر انکار کرتے رہے‘ ہم نے اسے دو ملکوں کے بجائے اسلام اور کفر کا تنازع بھی بنا دیا‘یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے یہ اگر واقعی کفر اور اسلام کا ایشو ہے توکیا پھر ہم مصر‘ اردن اور ترکی سے زیادہ بڑے مسلمان ہیں اور کیا ترکی اسرائیل کو تسلیم کر کے دائرہ اسلام سے

خارج ہو گیا تھا؟جی نہیں! یہ ملک آج بھی ہم سے زیادہ مسلمان ہیں لہٰذا یہ پھر مذہب کی بجائے سفارتی اور سیاسی ایشو ہے اور سیاست اور سفارت میں کوئی چیز قطعی نہیں ہوتی‘ ان کا فیصلہ ہمیشہ حالات کرتے ہیں مثلاً ہم اگر علامہ اقبال اور قائداعظم کی مثال ہی لے لیں تو ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا “بھی علامہ اقبال نے لکھا تھا اور قائداعظم بھی 1920ءتک ہندو مسلم بھائی بھائی کے حامی تھے‘

یہ کانگریس میں بھی رہے تھے لیکن پھر حالات نے علامہ اقبال اور قائداعظم دونوں کو دو قومی نظریے کا داعی بنا دیا۔یہ دونوں ری تھنکنگ پر مجبور ہو گئے چناں چہ میرا خیال ہے اگر قائداعظم اور علامہ اقبال 1950ءتک حیات ہوتے تو یہ بھی اسرائیل کے ایشو پر”ری تھنک“ ضرور کرتے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ قدم انہوں نے ترکی کی محبت اور برطانیہ کی نفرت میں اٹھایا تھا اور برطانیہ نے 1948ءمیں فلسطین چھوڑ دیا تھا اور ترکی نے 1949ءمیں فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا تھا‘ترکی کے بعد ایران نے 1950ء(ایرانی انقلاب کے بعدایران اسرائیل تعلقات ختم ہو گئے)ء

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…