اسلام آباد (پی این آئی ) سینئر کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے کالم’’لالی وڈ اور اِسلُو‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ہے کہ سب کا اتفاق ہے کہ حتمی فیصلے کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہے۔ تبدیلی کا فیصلہ بھی انہوں نے کرنا ہے اور متبادل کو بھی انہی نے چننا ہے، افواہیں بہت ہیں مگر بزکش کا روحانی کلہ مضبوط ہے روحانی تشریح یہ ہے کہ اگر پنجاب سے عین (عثمان) جاتا ہے تو پھر مرکز کے
عین (عمران) کو بھی خطرہ ہوگا اس لئے پنجاب کو نہ چھیڑا جائے ورنہ مرکز میں بھی ہل چل مچ جائے گی۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بزدار کی تبدیلی کے حوالے سے چودھریوں نے انوکی لاک لگا رکھا ہے۔ان کے قریبی حلقے کہتے ہیں کہ یا بزدار یا پھر چودھری، تیسرا کوئی نہیں آئے گا۔ دوسری طرف عمران خان چودھری کو اقتدار دینا نہیں چاہتے وہ خائف ہیں کہ چودھری وزیراعلیٰ بن گیا تو خیمہ پھر صرف اونٹ کا ہوگا، باقی سب فارغ ہو جائیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے اس مفروضے پر بھی غور کیا گیا کہ اگر (ق) لیگ کو تحریک انصاف میں ضم کر دیا جائے تو چوہدری تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ کے طور پر لائے جا سکتے ہیں۔اس حوالے سے قانونی ماہرین سے مشورہ کیا گیا تو پتا چلا کہ اگر ایسا ہوا تو نااہلی کا ڈر ہے یا پھر پرانی پارٹی سے استعفیٰ دے کر نئے سرے سے الیکشن لڑنا ہوگا۔ چوہدری پہلے بھی تیار نہ تھے کہ بڑی مشکل سے انہوں نے پارٹی کو کھڑا کیا ہے اس رائے کے بعد (ق) لیگ کے تحریک انصاف میں ضم ہونے کا باب ہی بند ہو گیا۔تحریک انصاف کے ایک اہم صوبائی رکن کا خیال ہے کہ اگر آج الیکشن ہو تو (ن)لیگ سوائے چند نشستوں کے سارا پنجاب جیت جائے گی کیونکہ (ن)لیگ کے مقابلے کے لئے سرے سے کوئی سیاسی حکمت عملی بنائی ہی نہیں گئی، اس رکن کا خیال ہے کہ اگر (ن) لیگ کا مَکو ٹھپنا ہے یا اس کو مقابلہ میں ہرانا ہے تو پھر ہر صورت چوہدری پرویز الٰہی کو لانا ہوگا کیونکہ ایک صرف وہی ہے جو پنجاب کے نو ڈویژنوں اور 36اضلاع کے بلدیاتی انتخابات میں حکومت کو کامیابی دلا سکتا ہے اور اگلے عام انتخابات کی ایسی حکمت عملی بنا سکتا ہے جس سے تحریک انصاف اور اس کے اتحادی جیت سکیں۔ تاہم عمران خان اور تحریک انصاف کے اکثریتی حلقے چوہدری کو وزارتِ اعلیٰ کسی صورت دینے کے حق میں نہیں ہیں۔