بیجنگ (این این آئی)چین اور بھارت کے کمانڈروں نے سرحد میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے مذاکرات شروع کردیے ہیں جبکہ بھارت میں چین کے خلاف عوام کے غصے میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق بھارتی حکومت کے ذرائع نے بتایا کہ دونوں اطراف کے کمانڈروں کی چین کے طرف سرحد میں مولدو کے علاقے میں ملاقات ہوئی، جو لداخ کی متنازع سرحد کے قریب واقع ہے۔دونوں ممالک کے فوج کے افسران کے
درمیان گزشتہ ہفتے پہلی ملاقات ہوئی تھی جو 15 جون کو ہونے والے تصادم کے بعد مذاکرات کا پہلا دور تھا۔سرحد پرتعینات فوجیوں نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے تھے تاہم دونوں حکومتوں نے مزید کشیدگی سے گریز کیا تھا۔خیال رہے کہ دونوں ممالک کی افواج کے درمیان 1967 میں خونی تصادم ہوا تھا جس کے بعد طے پانے والے قواعد کے تحت فائرنگ نہیں کی جاتی اسی لیے دونوں طرف سے ڈنڈوں، سریوں اور پتھروں سے ایک دوسرے پر حملے کیے گئے تھے۔بھارت کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ تصادم میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہوئے اور کم ازکم 76 زخمی بھی ہوئے اور اس کو چین کی منصوبے کے تحت کاروائی سے تعبیر کیا تھا۔دوسری جانب چین نے بھارت کولداخ کی وادی گلوان میں فوجی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تصادم کے لیے اکسانے کا الزام عائد کیا تھا تاہم کسی جانی نقصان سے متعلق کچھ نہیں بتایا تھا۔بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ چین کے تقریباً 40 فوجیوں کو بھی ہلاک کردیا گیا ہے۔سرحد پر فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارت کے عوام نے بھی غصے کا اظہار کیا تھا اور وزیراعظم نریندر مودی کی قوم پرست حکومت کو جواب دینے پر زور دیا تھا۔بھارت کی کاروباری تنظیموں نے چینی مصنوعات کی بائیکاٹ کا مطالبہ بھی کیا تھا۔کنفڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرز (سی اے آئی ٹی) نے وفاقی اور ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ چینی مصنوعات کے بائیکاٹ اور چینی کمپنیوں کو دیے گئے ٹھیکوں کو منسوخ کرنے کی حمایت کریں۔