کراچی (این این آئی)اپوزیشن کے شور شرابے میں وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے سندھ کے نئے مالی سال 2020-21کے لیے 12کھرب روپے سے زائد کا بجٹ پیش کر دیاہے۔وفاق اور پنجاب کے برعکس سندھ حکومت نے گریڈ 1 سے 16 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے جبکہ ترقیاتی بجٹ209 ارب روپے، زرعی شعبے کے لئے 10 ارب، تعلیم کے لئے 23 ارب،صحت کے لیے 28 ارب اور آبپاشی کے
لئے 17 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔بدھ کو اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی سربراہی میں جاری اجلاس میں بجٹ پیش کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ مشکل حالات میںمیرے لیے فخر کا مقام ہے کہ میں 8ویں بار بجٹ پیش کررہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کورونا اور ٹڈی دل کی وجہ سے صوبہ انتہائی مشکلات کا شکار ہے ، سندھ کے عوام کی مشکلات کو مدنظر رکھ کر بجٹ بنایا گیا ہے۔ اللہ تعالی کابے حد شکر گزار ہوں کہ ہمیں ہمت، طاقت اور استطاعت عطا فرمائی کہ ہم کووڈ -19 کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں۔انہوںنے کہا کہ 3.0بلین روپے سے کورونا وائرس ایمرجنسی فنڈقائم کیا گیا ہے ،جس میں 1.3 بلین روپے سندھ حکومت اورتقریبا1.7 بلین روپے صوبائی ملازمین کی جانب مہیا کئے گئے۔ اس رقم کے استعمال کی نگرانی اور منظوری چیف سیکریٹری کی سربراہی میں قائم کمیٹی کے سپرد ہے۔ اس کمیٹی میں نجی شعبے کی موثر موجودگی کے ذریعے تمام امور میں شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بنایاگیا۔کووڈ -19 سے نبردآزما تمام طبی عملے کیلئے ایک رواں بنیادی تنخواہ کی شرح سے ہیلتھ رسک الانس کی منظوری دی جاچکی ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے بدھ سندھ اسمبلی میں بجٹ تقریر سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اللہ تعالی کابے حد شکر گزار ہوں کہ ہمیں ہمت، طاقت اور استطاعت عطا فرمائی کہ ہم کووڈ -19 کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں ۔ ہم کووڈ – 19 کے چیلنجز کا مقابلہ
کرنے کے لیے ایک طویل اور صبر آزما سفر سے گذر رہے ہیں۔یہ وبا بین الاقوامی سرحدوں کے آرپار جنگل کی آگ کے مانند دنیا کے 200 سے زاید ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔سندھ حکومت نے کووڈ- 19 سے نمٹنے کیلئے اپنے وسائل کو قیمتی انسانی جانوں کے تحفظ اور معیشت کو سہارا دینے پر خرچ کرنے کے لیے اقدامات کئے ہیں۔کووڈ- 19 بنیادی طور پر موجودہ نظام صحت کے لیے ایک خطرہ ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ جیسے
جیسے یہ بڑھ اور پھیل رہا ہے یہ زندگی کے دیگر تمام شعبوں کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ اس نظر نہ آنے والے دشمن سے مقابلے کے لیے دنیا نے اپنے وسائل کی سمت تبدیل کی ہے تاکہ لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ کیا جاسکے۔ انہوںنے کہا کہ اس وبا نے دنیا کو ساکت وجامد کر دیا ہے اور شہروں کو حقیقتاً ویرانوں میں بدل دیا ہے ۔اس خطرے سے نمٹنے کیلئے لاک ڈان کو دنیا بھر میں واحد قابل عمل حکمت عملی کے طور پر اختیارکیا گیا ہے۔ سندھ حکومت
نے کووڈ-19 کے خطرات سے نمٹنے کے لیے عالمی طور پر اختیار کی گئی حکمت عملی کی پیروی کی ہے۔ سندھ وہ پہلا صوبہ تھا جہاں لاک ڈاؤن پر عملدرآمد اور اطلاق کے لیے اقدامات عمل میں لائے گئے۔26 فروری 2020 کو جیسے ہی صوبے میں پہلا کیس نمودار ہوا تو فوری طور پر اسکولوں کو بند کرنے کے اقدامات کئے گئے۔ایسی تمام جگہوں پر جہاں لوگ جمع ہو سکتے تھے ہم نے وہاں 23 مارچ 2020 سے لاک ڈاؤن نافذ کیا۔
دوسرے صوبوں نے بھی رفتہ رفتہ اس طرز عمل کی پیروی کی ۔باقی ملک میں بھی لاک ڈاؤن کے نفاذ کا طرز عمل اختیار کیاگیا۔ انہوںنے کہا کہ 3.0بلین روپے سے کورونا وائرس ایمرجنسی فنڈقائم کیا گیا ہے ،جس میں 1.3 بلین روپے سندھ حکومت اورتقریبا1.7 بلین روپے صوبائی ملازمین کی جانب مہیا کئے گئے۔ اس رقم کے استعمال کی نگرانی اور منظوری چیف سیکریٹری کی سربراہی میں قائم کمیٹی کے سپرد ہے۔ اس کمیٹی میں نجی شعبے کی
موثر موجودگی کے ذریعے تمام امور میں شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بنایاگیا۔کووڈ -19 سے نبردآزما تمام طبی عملے کیلئے ایک رواں بنیادی تنخواہ کی شرح سے ہیلتھ رسک الانس کی منظوری دی جاچکی ہے۔ اس رسک الاؤنس کو اب تمام ہیلتھ پروفیشنلزکے لیے توسیع دی جارہی ہے۔انہوںنے کہا کہ پوسٹ گریجویٹ / ہاس جاب آفیسرز کو بالترتیب گریڈ 17/18 کی ابتدائی بنیادی تنخواہ مارچ 2020 سے کووڈ- 19 وبا کے خاتمے تک دی جائے گی۔
2020-21 میں ہیلتھ رسک الاؤنس پر 1.0 بلین روپے خرچ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ صوبے میں کورونا ٹیسٹنگ کی استطاعت کو بڑھا کر 11450 روزانہ کر دیاگیا ہے۔تمام اضلاع میں 81 قرنطینہ مراکز جن میں 8266 بستر وں کی گنجائش موجود ہے قائم کیے گئے ہیں۔ جون 2020 تک یہ گنجائش 8616 تک بڑھا دی جائے گی۔ طبی سہولیات اور خدمات کی بروقت اور درست فراہمی کے لیے سندھ حکومت نے میڈیکل پروکیورمنٹ کمیٹی قائم کی
ہے۔ اس کمیٹی نے ضروری مشینری آلات اور اوزاروں کی 2.43 بلین روپے کی خریداری کی ہے، جس میں 1.5 بلین روپے کورونا ایمرجنسی فنڈ سے اور 891.8 ملین روپے پی ڈی ایم اے فنڈ کے شامل ہیں۔انہوںنے بتایا کہ موجود وینٹی لیٹرز میں اضافے کے لیے 101 مزید وینٹی لیٹرز بمعہ 250 مانیٹرز خریدے گئے ہیں۔نیپا چورنگی کراچی پر واقع وبائی امراض کے اسپتال کو گرانٹ ان ایڈ کے تحت 2.0 بلین روپے کی امداد دی گئی۔ حکومت سندھ
کورونا وائرس کے سبب پیدا ہونے والے سماجی اور معاشی اثرا ت سے نمٹنے کے لیے بھی اقدامات عمل میں لا رہی ہے ۔سندھ حکومت نے تمام ڈپٹی کمشنرز کو 1.08 بلین روپے جاری کئے تاکہ ضرورت مندوں کو ان کی دہلیز پر راشن مہیا کیا جاسکے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ پراپرٹی، موٹر وہیکل،پروفیشنلز، ٹریڈز، کالنگ اور ایمپلائمنٹ کے لیے ٹیکسوں کی ادائیگی میں استثنیٰ اور نجی شعبے کے تحت زیر تعلیم طالب علموں کے لیے اپریل اور مئی
2020 کے لیے ٹیوشن فیس میں 20 فیصد کمی کا اعلان کیا گیا ہے ۔کووڈ- 19 کی وبا سے تحفظ کے لیے تمام اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں ا ور سرکاری شعبے کے زیادہ تر دفاتر کی بندش رہی، تاہم اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ لازمی خدمات کے ادارے اور دفاتر فعال رہیں ۔نجی شعبے میں دفاتر، کاروبار اور صنعتوں کی بندش لیکن لازمی خدمات کی بلا رکاوٹ فراہمی کو یقینی بنایاگیا ۔تمام کمرشل اور نان کمرشل جہاں لوگوں کے اجتماع کے
قومی امکانات ہوتے ہیں کو بند کیاگیا ۔تاکہ طبعی روابط کو کم سے کم کیا جاسکے اور سماجی فاصلے کو یقینی بنایا جاسکے۔ نجی شعبے کے دفاتر اور تجارتی مالکان پر اپنے ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے پر زور دیاگیا۔ کووڈ- 19 کے بارے میں حکومتی اقدامات سے باقاعدگی سے آگاہی کیلئے وڈیو خطاب بھی نشر کی گئیں۔انہوںنے کہا کہ کووڈ- 19 کے خلاف اٹھائے گئے ہمارے اقدامات پر بعض حلقوں کی جانب سے ہمیں تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ ہم
تنقید کو مثبت طریقے سے دیکھتے ہوئے اپنے صوبے کے عوام کو اس وبا سے محفوظ رکھنے کے اقدامات جاری رکھیں گے۔ چین نے کووڈ – 19 سے نمٹنے کے اپنے تجربات سے ہمیں آگاہ کیا ۔اس آگاہی کے سبب ہم نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے بہتر انداز میں تیاری کی ۔ میں یہاں کووڈ -19 کے خطرات سے نمٹنے کے لیے فراہم کیے جانے والے وفاقی حکومت کے تعاون کو بھی سراہنا چاہوں گا۔کووڈ ایسا چیلنج نہیں کہ جس سے تنہا نمٹا
جاسکے انفرادی قرنطینہ اگرچہ کہ کووڈ کا علاج ہے لیکن انتظامی قرنطینہ نہیں۔لگتا یوں ہے کہ وفاقی حکومت ٹیم ورک کی افادیت کے تصور کو نہیں سمجھ سکی۔ہماری اگلی صفوں کے کارکنوں اور ہمارے اسپتالوں کو زیادہ سے زیادہ تعاون درکار ہے ۔وفاق نے ہمارے تین بڑے اسپتالوں کے امور اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوششیں کی ہیں۔یہ ایک ایسی کوشش ہے جس میں وہ پہلے بھی ناکام ہو چکے ہیں۔ہمیں ایک امید تھی کہ ایسا عمل دہرایا نہیں جائے گا۔
غیر قانونی طریقے سے جن اسپتالوں کا کنٹرول لینے کی کوشش کر رہے ہیں ان کی کارکردگی کو ہمارے ماتحت سراہاگیا ہے۔ وفاقی حکومت کو جاننا چاہیے کہ ہم یوں ہی نہیں بیٹھے رہیں گے کہ وہ ہمارے ہسپتالوں کو اسی سطح پر لے جائیں جس پر کبھی وہ انہیں چلایا کرتے تھے۔ ہمیں توقع تھی کہ کووڈ کے ان ایام میں اس طرح کے ذاتی ایجنڈا سے گریز کیا جائے گا لیکن ہمیں مایوسی ہوئی۔ انہوںنے کہا کہ کووڈ – 19 کے خطرے نے مارچ 2020
میں خوفزدہ کرنا شروع کیا۔ہم رواں مالی سال کے ریونیو اہداف حاصل کر رہے تھے کہ کورونا نے سر اٹھایا اورچیزیں خرابی کی طرف جانا شروع ہوئیں تاہم ہم نے اپنے بروقت اقداما ت کے ذریعے زندگیوں اور معیشت کو بڑے خطرے سے بچا لیا ہے۔سید مراد علی شاہ نے کہا کہ زرعی معیشت جی ڈی پی کے 24 فیصد کی حصہ دار ہے۔ قومی پیداوار میں سندھ کا حصہ 36 فیصد چاول میں، 29 فیصد گنے میں، 34 فیصد کپاس میں اور 15 فیصد
گندم میں ہے۔ٹڈی دل نے ہماری فصلوں بلکہ ہماری معیشت کو بھی خطرات سے دو چار کر دیا ہے۔ ہماری کاشتکار اس خطرے سے نمٹنے اور اپنی فصلوں کو محفوظ رکھنے کے لیے انتھک کوششیں کر رہے ہے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائیزیشن (FAO) کی جانب سے خطرات سے آگاہی کی بنا پر سندھ حکومت نے دسمبر 2019 میں ٹڈی دل ایمرجنسی نافذ کی ۔خطرات سے نمٹنے کے لیے اسپرے، ہیلپ لائن کا قیام اور فیلڈ ٹیموں کی تعداد اب بڑھا
کر 98 کر دی گئی اور ان ٹیموں میں 358 افراد اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ہم نے آگاہی کے فروغ کے لیے میڈیا مہم شروع کی ہے اور ضلع اور تعلقہ سطح پر ٹڈی دل کی صورتحال کی نگرانی کے لیے کمیٹیاں بنائی ہیں ٹڈی دل کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہم کاشتکار، کسان، زرعی انجمنوں، سندھ آباد گار بورڈ اور چیمبر آف ایگریکلچر سے مستقل رابطے میں ہیں ۔عالمی بنک نے بھی ٹڈی دل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ہماری مدد کے لیے
رابطہ کیا ہے۔چین کی حکومت بھی ٹڈی دل میں مد د کے لیے آگے آئی ہے ۔ گاڑیوں پر نصب کرنے کے لیے 12 ایئر بلاسٹ اسپریئر زفراہم کیے ہیں ۔وزیراعلیٰ سندھ نے اپنے خطاب میں کہا کہ کچھ حلقے 18 ویں آئینی ترمیم جسے 2010 میں مجلس شوری نے منظور کیا کے مندرجات پر نظر ثانی کے مطالبات اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔این ایف سی ایوارڈ کے حصے کی تقسیم کے فارمولے پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں ۔قیام پاکستان کے بعد
سے اب تک 18 ویں ترمیم وفاق سے صوبوں کو اختیارت کی منتقلی کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس ترمیم کا کریڈٹ ہماری پارٹی قیادت کو جاتا ہے۔سابق صدر آصف علی زرداری نے ملک کی قیادت کرتے ہوئے قوم کو 18 ترمیم کے تحفے سے نوازا۔18 ویں ترمیم کے تحت سندھ نے کووڈ- 19 کے خطرات سے نمٹنے اور اس سے بچا کے اقداما ت میں سبقت حاصل کی۔ 18 ویں ترمیم کو پلٹانے یا اس میں ترمیم کرنے سے وفاق کمزور ہو سکتا ہے، جس
کے نتیجے میں وفاق اور وفاقی اکائیوں کے مابین اعتماد کا فقدان ہو گا۔ ہماری پارٹی قیادت 18 ویں ترمیم کو ملک کی ترقی کے لیے اکسیرکا درجہ دیتی ہے ۔ہم صوبائی خود مختاری کے تحفظ کے لیے پر عزم ہیں جو کہ پاکستان کے عوام کو آئین میں تفویض کیے ۔ہم عوام کے مفاد کے لیے 18 ویں ترمیم کے بارے میں اپنے اصولی موقف پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہم عوامی خدمات کی فراہمی کا ایک موثر نظام وضع
کرنے کے خواہاں ہیں، جس کے تحت صوبے کے عوام کو بہترین ممکنہ خدمات ان کی دہلیز پر فراہم کی جاسکیں۔انہوںنے کہا کہ شعبہ صحت کے لیے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں موجودہ آمدنی کے کل اخراجات 139.1 بلین روپے رکھے گئے ہیں۔ جب کہ ترقیاتی اسکیموں کے لیے مختص رقم 23.5 بلین روپے ہے۔ اگلے مالی سال 2020-21 کے لیے ترقیاتی کاموں میں کچھ اہم منصوبوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ محکمہ صحت کا بجٹ دو بڑے
حصوں میں تقسیم ہے ہیلتھ سروسز اور میڈیکل ایجوکیشن مالی سال 2019-20 کے لیے محکمہ صحت کے بجٹ کا تخمینہ 120.486 بلین روپے تھا ۔ اگلے مالی سال 2020-21 کے لیے بڑھا کر 139.178 بلین روپے کر دیاگیا ہے۔ پولیو، ٹی بی،ہپاٹائٹس اور دیگر بیماریوں سے بچا کے لیے 9 پروگراموں کے لیے اگلے مالی سال 2020-21 میں 7 بلین روپے رکھے گئے ہیں۔ ٹی بی کنٹرول پروگرام کے لیے 559.4 ملین روپے،صحت سمیت
مختلف محکموں میں اسسٹنٹ اور غذایت کی کمی کے لیے ایک ملٹی سیکٹورل ایکسلریٹڈ ایکشن پلان کے تحت 5.5 بلین روپے مختص ، لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام کے لیے 1.2 بلین روپے، ہپاٹائٹس کی روک تھام کے لیے 1.9 بلین روپے، زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی صحت سے متعلق صحت کے پروگرام کے لیے 267.9 ملین روپے، ای پی آئی پروگرام کے لیے 2.3 بلین روپے،نیپا کراچی میں 200 بستر والے موذی بیماریوں پر قابوں پانے والے اسپتال
کے لیے ایک بلین روپے،صحت سے متعلق 22 صحت کی سہولیات کو اپ گریڈ اور آپریشنل کرنے کے لیے ایک بلین روپے، لیاری جنرل اسپتال کراچی کے لیے صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات کو اپ گریڈ کر نے کے لیے 234.6 ملین روپے ، سندھ میں کالعدم تنظیموں کی صحت کی سہولیات کو ٹیک اوور کرنے کے لیے 521.1 ملین روپے رکھے گئے ہیں ،رواں مالی سال کے دوران انڈس ہسپتال کراچی کے لیے خصوصی گرانٹ کے طور پر 4
ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔2 بلین روپے موجودہ آپریشن اور 2 بلین روپے انڈس اسپتال کی توسیع کے لیے ہیں ۔صحت کی سہولیات کے لیے پلانٹ اور مشینری کی خریداری کے لیے 1.5 بلین روپے ،صحت کی سہولیات میں فرنیچرز اور فکسچر کی خریداری کے 250 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔انہوںنے کہاکہ این آئی سی وی ڈی(NICVD) کراچی کے لیے 5.1 بلین روپے رکھے گئے ہیں ، ایس آئی سی وی ڈی (SICVD) کے لیے 5.1
بلین روپے رکھے گئے ہیں ۔پی پی پی نوڈ محکمہ صحت کے لیے 2.5 بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پیر عبدالقادر شاہ جیلانی، گمبٹ کے ادارے کے لیے 3.6 بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔انسٹی ٹیوٹ آف آپتھلمالوجی اینڈ ویزول سائنس حیدرآباد کے لیے 300 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جیکب آباد انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے لیے 600 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ایس ایم بی بی ٹراما سینٹر کراچی کے لیے 1.7 بلین
روپے مختص کیے گئے ہیں۔ شہداد پور انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے لیے 300 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ایس آئی یو ٹی(SIUT) کے لیے 5.6 بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پی پی ایچ آئی (PPHI) سندھ کے لیے 6.5 بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ این آئی بی ڈی (NIBD) کے لیے 500 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ چائلڈ لائف فانڈیشن کے لیے 900 ملین روپے ، انسٹی ٹیوٹ آف فزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبلی ٹیشن ،
کراچی کے لیے 100 ملین روپے اور ہیلتھ کیئر کمیشن، کراچی کے لیے 365 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ آیندہ مالی سال 2020-21 کے لیے محکمہ صحت کے شعبے میں صحت کی مختلف سرگرمیوں کے لیے گرانٹ ان ایڈکی بھی تجویز ہے ۔سندھ میں پولیو ورکرز کے معاوضے کے لیے بطور گرانٹ 312 ملین روپے کڈنی سینٹر کراچی کے لیے گرانٹ ان ایڈ کے لیے 200 ملین روپے، بلڈ کینسر کے مریضوں کی ادویات کے
لیے بطور گرانٹ ان ایڈ 431.1 ملین روپے، تھیلسیمیا کے علاج کے لیے سندھ میں صحت کی مختلف سہولیات کے لیے 160 ملین روپے بطور گرانٹ ان ایڈ، ANF(MATRC) کے کراچی حیدرآباد اور سکھر میں قائم مراکز کے لیے 73.6 ملین روپے بطور گرانٹ ان ایڈ (مالی معاونت)، کراچی اور سکھر میں قائم کیمیکو جراثیم کش لیب کی بہتری کے لیے 80 ملین روپے بطور گرانٹ ان ایڈ، کینسر فانڈیشن کے لیے 100 ملین روپے بطور گرانٹ ان ایڈ،
کینسر کی دوسری بیماریوں کے لیے شروع کیے گئے سی ایم ایل (CML) پروجیکٹ کی توسیع کے لیے 383.8 ملین روپے بطور گرانٹ ان ایڈ، سندھ کی مختلف صحت کی سہولیات میں ڈائیلایسز کے لیے 150 ملین روپے بطور گرانٹ ان ایڈ، فاطمید فانڈیشن سندھ کے لیے 100 ملین روپے بطور گرانٹ ان ایڈ، ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کے علاج اور فلاح و بہبود کے لیے 1.0 بلین روپے بطور گرانٹ ان ایڈ، نمرا (NIMRA) جامشورو کے لیے
121.1 ملین روپے بطور گرانٹ انڈ ایڈ، سول ہسپتال کراچی میں سرجیکل یونٹ کو بہتر حالت میں رکھنے کے لیے نگہبان کے لیے 100 ملین روپے بطور گرانٹ ان ایڈ، مریضوں کی ویلفیئر ایسوسی ایشن، کراچی کے لیے 150 ملین روپے بطور گرانٹ ان ایڈ، اسلام کوٹ میں ہسپتال کے قیام کے لیے تھر فانڈیشن کے لیے 250 ملین روپے بطور گرانٹ ان ایڈ ۔ 183.6 ملین روپے بطور گرانٹ ان ایڈ ہپاٹائٹس بی کی ویکسین کی خریداری کے لیے مختص
کیے گئے ہیں ۔محکمہ تعلیم کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے بتایا کہ تعلیمی اداروں میں بہتری کے لیے محکمہ تعلیم کو 2016 میں دو محکموں میں تقسیم کیاگیا ۔اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈپارٹمنٹ (SELD) اور کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ (CED) ہیں ۔تقسیم سے ہمیں اسٹیک ہولڈرز کی ضروریات اور امنگوں کی بہتر تفہیم کے ساتھ معاملات کو مائکرو مینجمنٹ کرنے کا موقع کیا۔ اگلے مالی سال 2020-21 کے لیے میکرومینجمنٹ کے تناظر میں تعلیم
کے شعبے کا بجٹ بڑھا کر 244.5 بلین روپے کر دیا گیا ہے ۔مالی سال 2019-20میں تعلیم کا بجٹ 212.4 بلین روپے تھا۔ وسائل کی کمی کے باوجود ہم نے جو فنڈز مختص کیے ہیں وہ ہمارے موجودہ محصولاتی بجٹ کا 25.2 فیصد ہیں۔ اگلے مالی سال 2020-21 کے لیے اے ڈی پی میں تعلیم کے شعبے میں 397 جاری 11 نئی غیر منظور شدہ منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 21.1 بلین روپے مختص کیے ہیں۔ صوبائی ترقیاتی بجٹ کے
وسائل مختص کر نے کے علاوہ ایف پی اے کے تحت 3.1 بلین روپے بھی مختص کیے گئے ہیں۔ محکمہ اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی نے 265 جاری اسکیموں اور 4 نئی اسکیموں کے لیے 13.2 بلین روپے مختص کیے ہیں۔ زیادہ تر اسکیمیں موجودہ سرکاری اسکولوں کو پرائمری سے سیکنڈری کی سطح پر اپ گریڈ کرنے کے لیے ہیں ۔اسکولوں کی بحالی اور بہتری ، فرنیچر کی فراہمی، بنیادی اور غیر موجودہ سہولیات کی فراہمی ، اسکولوں کی
عمارتوں کی تعمیر نو ترجیحات میں شامل ہے۔محکمہ کالج ایجوکیشن کے لیے سالانہ ترقیاتی پروگرام 2020-21 میں 67 جاری اور 2 نئی اسکیموں کے لیے 3.71 بلین روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ یونیورسٹیوں اور بورڈز کی ترقیاتی ترجیحات کے لیے 3.3 بلین روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ سرکاری یونیورسٹیوں ان کے تعلیمی بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنیادوں پر تشکیل دینے اور نئی تعلیمی سہولیات کی تعمیر کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں
گے۔ انہوںنے کہا کہ تعلیم کے شعبے کو تین وسیع کیٹیگریز میں تقسیم کیاگیا ہے۔ ان میں اسکول ایجوکیشن، کالج ایجوکیشن اور اعلی تعلیم جس میں یونیورسٹی اور پیشہ ورانہ تعلیم شامل ہیں۔اسکول ایجوکیشن کے حوالے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ حکومت سندھ اپنے محدود وسائل سے اسکول کی تعلیم کے لیے فنڈز مہیا کرتی ہے۔بین الاقوامی ڈونرز بھی سندھ میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔2019 کے سندھ
حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پرائمری اسکولوں میں 2,473,693 طالب علم زیر تعلیم ہیں، جن میں 1,523,250 طلبا اور 950,443 طالبات ، مڈل کلاسز کے 690,528 طالب علموں میں 433,550 طلبا اور 256,978 طالبات ، ثانوی سطح پر انرول 382,558 طالب علموں میں 248,398 طلبا اور 134,164 طالبات اور اعلی ثانوی سطح پر انرول کل 129,118 طالب علموں میں 90,304 طلبا اور 38,814 طالبات شامل
ہیں۔انہوںنے کہا کہ اسکول کی تعلیم کی ہر سطح پر کل انرول طالب علموں کی تعداد 4,561,140 ہے ،جس میں 2,812,000 طلبا اور 1,749,8140 طالبات شامل ہیں۔ حکومت سندھ نے کارکردگی کو جانچنے اور ضرورتوں کی تشخیص کے لیے مختلف اشاریے اختیار کیے ہیں۔مختلف اسکولوں کا انتظام ای ایم او کے حوالے کرنے کے لیے ایجوکیشن مینجمنٹ آرگنایزیشن کو بطور گرانٹ ان ایڈ ایک بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس
کے علاوہ فرنیچر اور فکسچر کی خریداری کے لیے 6.6بلین روپے مختص کیے گئے ہیں، بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں کی مدد سے نئی سرگرمیوں کے لیے 6.1 بلین روپے مختص کیے گئے ہیں، درسی کتب کی مفت فراہمی کے لیے 2.3 بلین روپے، اسکول مینجمنٹ کمیٹی کے لیے اسکولوں کی ضروریات پورا کرنے کے لیے 1.8 بلین روپے، اسکولوں کی عمارتوں کی مرمت کے لیے 5.0 بلین روپے، کوویڈ – 19 کی وجہ سے پیدا ہونے والی
صورت حال کے بعد نئے اقدامات کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے 480 ملین روپے اور ایسے تمام تعلیمی اثاثوں کے لیے 663.4 ملین روپے بھی اگلے مالی سال 2020-21 کے بجٹ میں رکھے گئے ہیں 29 اضلاع کے 1606 پرائمری، ایلیمینٹری اور ہائی اسکولوں کو تمام بنیادی ضروریات کی فراہمی، آیندہ تعلیمی سال سے ای ایم او کے ذریعے پی پی پی موڈ کے تحت 15 انگریزی میڈیم اور 6 کمپرہینسیو اسکولوں کو آپریشنل بنانے کے لیے
بنیادی کام کی تکمیل، نو اضلاع میں دس مزید انگلش میڈیم اسکول اور 9 کمپرہینسیو اسکولوں کو فعال کیا جائے گا جن میں سائنس/ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی لیبز اور کتب خانو کی تمام سہولیات میسر ہوں گی۔انہوںنے کہا کہ 2000 نئے نوزائدہ بچوں کی نگہداشت اور تعلیمی کلاس رومز کا قیام، 2500 ابتدائی بچپن کی تعلیم دینے والے اساتذہ کی تربیت اور تعلقہ اور ضلعی سطح پر تمام اسکولوں کی درسی کتب کے 4.93 ملین سیٹ کی چھپائی جاری ہے۔
سیدمراد علی شاہ نے کہا کہ اگلے مالی سال 2020-21 میں ہم نے بہت سے اہداف طے کیے ہیں۔ موجودہ اسکولوں میں مطلوبہ انفرا اسٹرکچر، سولر سسٹم / آئی ٹی سائنس لیب اور آڈیٹوریم مہیا کیے جائیں گے۔سندھ ایجوکیشن فانڈیشن کے زیر اہتمام اسکولوں میں طلبا کا اندراج بڑھا کر تقریبا181,047 کرنے کا منصوبہ ہے، اسمارٹ ٹیچنگ اینڈ لرننگ پروگرام کے متعارف کراتے ہوئے سندھ ایجوکیشن فانڈیشن میں 300 اسکولوں کا افتتاح، یو این ڈی پی
(UNDP) کے تعاون سے تعلیم، روز گار اور 15,000 نوجوانوں کو با اختیار بنانا، سندھ ایجوکیشن فانڈیشن کے سبسڈی ماڈل کے تحت 10 سال کے عرصے میں تقریبا 5000 اسکولوں کی ترقی کے لیے سٹیزن فانڈیشن کے ساتھ طویل مدتی ادارہ، جاتی شراکت کے تحت ترجیحی بنیادوں پر 10 اسکولوں کے قیام کا منصوبہ، صوبے کے تمام اضلاع میں طلبا کو 4.79 ملین سیٹ یعنی 239.4 ملین نصابی کتب کی فراہمی کا منصوبہ بھی اگلے مالی سال
2020-21 میں شامل ہے۔انہوںنے کہا کہ رواں مالی سال 2019-20میں 9.5بلین روپے سندھ ایجوکیشن فانڈیشن کے لئے مختص کئے گئے۔ 2020-21کے بجٹ میں بھی سندھ ایجوکیشن فانڈیشن کے لئے اتنی ہی رقم مختص کی جارہی ہے۔ سندھ ایجوکیشن فانڈیشن کے اسکولوں میں طالب علموں کی موجودہ تعداد 450000 ہے جو کہ آئندہ مالی سال 2020-21میں 550000تک بڑھنے کی توقع ہے۔سندھ ایجوکیشن فانڈیشن میں 200نئے ٹیکنیکل
ٹریننگ سینٹرز کا اضافہ کیا جائے گا۔ سندھ حکومت کی جانب سے سندھ ایجوکیشن فانڈیشن کو سندھ کے دور دراز علاقوں کے 2300اسکولز سونپے جارہے ہیں۔ سندھ ایجوکیشن فانڈیشن میں طالب علموں کی تعداد 5لاکھ ہے ۔ فانڈیشن نے سندھ بھر کے اسکولوں اور سینٹرز میں معیاری تعلیم کی فراہمی کی خدمات/ سہولیات کو یقینی بنانے کے لئے سرمایہ کاری کی حکمت عملی کے اپنائی۔2019-20 میں پرائمری اسکولوں کو بڑھایا گیا اور تقریبا
164588 طالبعلموں کا داخلہ کیا گیا۔انہوںنے کہا کہ صوبہ سندھ میں کل 146بوائز کالجز،131گرلز کالجز اور50مخلوط کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے تحت چل رہے ہیں۔ کل 436980طالب علم ان کالجز میں زیر تعلیم ہیں۔کورونا کے تناظر میں کالج کی تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ فاصلاتی تعلیم (Distance Learning) کے لئے کمپیوٹر لیب، سینٹرلائزڈ ٹیچنگ، اور ویب سروسز کو
استعمال کیئے جانے کے پروگرام مرتب کئے جائیں۔ کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ میں ٹیکنالوجی بڑھانے کے ضمن میں اگلے مالی سال 2020-21 کے لئے 451.0ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔این ای ڈی NEDیونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کراچی کیلئے انڈونمنٹ فنڈ سے 300ملین روپے گرانٹ مختص،گورنمنٹ کالج فار انفارمیشن ٹیکنالوجی گرو نگر حیدرآباد کے لئے 30ملین روپے کی گرانٹ رکھی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا
کہ کورونا وائرس اسکول جانے والے بچوں کو بھی متاثر کر چکا ہے۔سماجی فاصلہ اور نقل و حمل کی بندش کو ضروری بنانے کے لئے بہت سی حکمت عملی تلاش کی جا رہی ہے۔اس ضمن میں دنیا کی بہترین ایجوکیشن سلوشن (Education Solutions) فراہم کرنے والوں سے رابطہ کیا جا رہا ہے، کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے تحت سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ جس کے تحت کالج کے طالب علموں کے لئے
سائنس اور ٹیکنالوجی کے مقابلے اور نمائش منعقد کروائی جائے گی۔ بہترین سائنس اور ٹیکنالوجی پروجیکٹس کی بنا پر کالج کے طالب علموں کے لئے حکومت سندھ کی جانب سے انعامات بھی دئے جائیں گے۔انہوںنے کہا کہ حکومت سندھ ہائر ایجوکیشن انسٹی ٹیوشن میں اکیڈمک اور تحقیقی سرگرمیوں کو فروغ دیتی ہے ۔ پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیز کے لئے کافی فنڈز کی گرانٹ مدد کے طور پر مہیا کی گئی۔ ایجوکیشن اور بورڈز کو امتحانات کی فیس
کی مد میں فنڈز کی ادائیگی کی گئی۔شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیر پور میں بے نظیر بھٹو چیئر پروجیکٹ قائم کیا گیا۔ممکنہ طور پر آئندہ مالی سال 2020-21 میں مکمل ہوجائے گا۔ آئندہ مالی سالی 2020-21یونیورسٹیز کے لئے 5.0ملین روپے کی گرانٹ مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ 2.0بلین تعلیمی بورڈز اور 1.2بلین روپے سندھ تعلیمی بورڈز کے ان طالبعلموں کی اسکالرشپ کے لئے جو کہ گریڈ A-1حاصل کریں رکھے گئے ہیں۔
392.0 ملین روپے دیگر مختلف کیڈٹ کالجز کے لئے مختص کئے گئے ہیں ، 259.0ملین روپے پبلک اسکولوں کے لئے جبکہ 50.0ملین روپے (Program for result) بہتر کارکردگی کے لئے مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ کوویڈ 19اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہونے والے تعلیمی نقصان کو کم کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں ۔زیادہ تر یونیورسٹیز نے آن لائن کلاسز کے انعقاد کی تیاری شروع کر دی ہے تاہم مندرجہ ذیل اقدامات کووڈ 19کے
اثرات کو کم کرنے کے لئے شروع کئے گئے ہیں۔جناح سندھ میڈیکل یونیوررسٹی میں ڈاکٹرز اور ہیلتھ کیئر ورکرز کے لئے کوویڈ 19آن لائن کورسز کا انعقاد جے پی ایم سی JPMCمیں فیکلٹی آف پیتھالوجی کی تکنیکی معاونت سے لیول IIIکورونا لیبارٹری کا قیام جو کہ 20اپریل2020سے فعال ہے۔لیاقت یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائنسز جام شورو نے PCR400کٹس خریدی، کورونا کے ممکنہ مریضوں کی فری ٹیسٹنگ کی گئی ۔ ڈائینگنوسٹک اینڈ
ریسرچ لیباریٹری حالیہ دنوں میں ایک ہزار سے چھ ہزار تک یومیہ ٹیسٹ کر رہی ہے۔ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کی منظوری سے تجرباتی بنیادوں پر Convalescent Plasma-19کی کلیکشن شروع کی جاچکی ہے۔ کووڈ 19کی معین ترتیب اور تبدیلی ہیئت (Mutation) کی نشاندہی کی کوششیں یونیورسٹی کو کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری میں مددگار ثابت ہوگی۔حکومت سندھ کے تعاون سے پنجوانی سینٹر فا رمالیکیولر
میڈیسن یو نیورسٹی آف کراچی میں کووڈ 19کی ٹیسٹنگ کے لئے یومیہ 800ٹیسٹ کے لئے لیب کا قیام،شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی شہید بینظیر آباد اور یونیورسٹی آف سندھ جامشورو میں Sanitizer Liquidکی بوتلیں تیار کی گئی ہیں جنہیں اسپتالوں اور ضلعی انتظامیہ کے دفاتر میں تقسیم کیا گیا۔ قائد عوام یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی نواب شاہ میں واک تھرو گیٹ تیار کئے گئے جنہیں کئی اداروں اور شہر کے سول اسپتال کو عطیہ کیا گیا۔
شہید محترمہ بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ آریجہ کیمپس میں لاڑکانہ کے ممکنہ متاثرہ کووڈ 19کے مریضوں کے لئے قرنطینہ مرکز کا قیام عمل میں لیا گیا ہے ۔وزیراعلیٰ سندھ نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ اسکل ڈیولپمنٹ اور روز گار کے مواقعوں کی فراہمی کے ضمن میں بے نظیر بھٹو شہید یوتھ ڈویلپمنٹ پروگرام کو مستقل کر دیاگیا ہے۔ 12 سال سے قائم اس بورڈ نے تقریبا 404,235 نوجوانوں کو تربیت دی ہے ۔25000 نوجوانوں کو
نجی اور سرکاری شعبے کے توسط سے مختلف روز گار تجارت میں تربیت دی جائے گی ۔ان تجارتی شعبوں میں آرٹیفشل انٹیلجنس، ڈرپ، ایریگیشن، واٹر ٹریٹمنٹ اور پیوریفکیشن شامل ہیں۔ یہ تربیت مفت فراہم کی جارہی ہے اور اس حکومت سندھ تمام اخراجات برداشت کرتی ہے ۔ہر ٹرینی کو 2500 روپے بطور وظیفہ ہر مہینے دیئے جائیں گے۔ سندھ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی نے پورے سندھ میں 22 مزید اداوں کی منظوری دی۔
600 خواتین کو مالی طور پر با اختیار بنانے کی تربیت، آئی بی اے(IBA) کراچی کے تعاون سے 1600 افراد کی تربیت۔ 33 اساتذہ کو انٹرپرئنور شپ کی تربیت اور 50 اداروں میں قابلیت پر مبنی تربیت کا متعارف کرانا شامل ہے۔ اگلے مالی سال 21-2020کے لیے اسٹیوٹا (STEVTA) کے تحت مختلف اہداف سیٹ کیے گئے ہیں۔70,000 نوجوانوں کو کوویڈ-19 کی صورتحال کے حوالے سے تربیت کے مواقع فراہم کرنا شامل ہیں۔ این اے
وی ٹی ٹی سی(NAVTTC) کے تعاون سے کامیاب جوان ہنر مند پاکستان پروگرام پر عملدرآمد اور جدید اپرنٹسشپ سسٹم کا نفاذشامل ہے ۔انہوںنے کہا کہ حکومت سندھ کا مقصد سندھ میں محفوظ تیز اور قابل اعتماد نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی ہے، اس شعبے کے فروغ کے لئے 17اسکیموں میں 6.4بلین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ محکمہ ٹرانسپورٹ لازمی طور پر وہیکل انسپیکشن اینڈ سرٹیفیکیشن سسٹم کو اپ ڈیٹ کرنا ہے۔ حکومت
کراچی سرکلر ریلوے پروجیکٹ جس کی لاگت 207.5ہے۔ جس سے کراچی کے ٹرانسپورٹ کے مسائل حل ہوں گے۔ حکومت سندھ نے 3 بلین روپے کے سی آر روٹ کے ساتھ ریلوے کراسنگ پر انڈر پاس اور اوور ہیڈ برج کی تعمیر بی آر ٹی ایس اورنج لائن 4 کلومیٹر طویل راہداری BRT Connectingگرین لائن کے لئے مختص کئے ہیں۔ اس منصوبے کی جون 2020 تک تکمیل متوقع ہے۔ اسی طرح وفاقی حکومت کے فنڈز سے BRTSگرین
لائن بھی دسمبر 2020میں مکمل ہونے کی توقع ہے۔ حکومت سندھ کی جانب سے انٹیگریٹڈ انٹیلیجنس ٹکٹنگ سسٹم (IITS)بس آپریشن اور فیئر کلیکشن سسٹم نظام وضع کیا جا رہا ہے۔آئندہ مالی سال میں 74بلین روپے کی تخمینہ لاگت کے دو نئے منصوبے شامل ہیں۔بی آر ٹی ریڈ لائن 29 کلو میٹر اور 61بلین تخمینے کی لاگت کے بی آر ٹی یلو لائن 22کلومیٹر،اے ڈی بی ADBاور ورلڈ بنک کے تعاون سے ADP 2019-20میں شامل ہیں۔ مالی وسائل
کے لحاظ سے 500سے زائد سڑکوں کی اسکیموں کے لئے ADP 2020-21میں 36.5بلین روپے مختص کرنے کی سفارش ہے۔ جن میں محکمہ ورکس اینڈ سروسز اور محکمہ بلدیات کی سڑکوں سے متعلق اسکیمیں شامل ہیں۔ صوبائی ترقیاتی وسائل کے علاوہ بیرونی امدادی منصوبوں کے تحت 165ملین روپے بھی فراہم کئے جائیں گے۔رواں مالی سال 2019-20کے لئے 15.1بلین روپے مختص کئے گئے تھے آئندہ مالی سال 2020-21کے
لئے 14.8بلین روپے بجٹ میں محکمہ ورکس اینڈ سروسز کے لئے رکھے گئے ہیں۔ حکومت سندھ کی عمارتوں اور اسٹرکچر کی مرمت اور دیکھ بھال کی مد میں 4.1بلین روپے رکھے گئے ہیں، جن میں 2.3بلین روپے دفاتر کی عمارتوں کے لئے اور 1.6بلین روپے رہائشی عمارتوں کے لئے رواں مالی سال 2019-20میں مختص کئے گئے فنڈ ز شامل ہیں۔اس کے علاوہ رواں مالی سال 2019-20میں سندھ میں سڑکوں کے انفرااسٹرکچر کی مرمت اور
دیکھ بھال کے لئے 3.8بلین روپے مختص کئے گئے۔مختص کردہ 24بلین روپے کی 413اسکیمیں رواں مالی سال 2019-20پر کام جاری ہے۔ایشین ڈولپمنٹ بنک کی مالی معاونت کے ساتھ ورکس اینڈ سروسز نے 97.8ملین USDڈالر کی لاگت سے سندھ پرونشل روڈ امپرومنٹ پروجیکٹ کے تحت سڑکوں کی بحالی کا کا م مکمل کیا ہے ۔اس میں 90فیصد ADBکا قرضہ اور 9.14فیصد حکومت سندھ کا حصہ ہے۔انہوںنے کہا کہ بحال ہونے والی
سڑکوں میں 3.3بلین روپے کی لاگت کا 67کلومیٹر طویل ٹنڈو محمد خان روڈ، 3.3بلین روپے لاگت کا 54کلومیٹر طویل ڈگری۔ نو کوٹ روڈ، 2.8بلین روپے لاگت کا 64کلومیٹر طویل خیبر۔ سانگھڑ براستہ ٹنڈو محمد خان روڈ، 24بلین روپے کی لاگت کا 63کلومیٹر طویل سانگھڑ۔ میرپور خاص براستہ سندھڑی روڈ، 1.4بلین روپے کی لاگت کا 36کلومیٹر طویل شیران پور۔ رتو ڈیرو روڈ، 2.06بلین روپے کی لاگت کا 44کلومیٹر طویل تھل۔ کندھ کوٹ
روڈ شامل ہیں ۔انہوںنے کہا کہ ان پروجیکٹس سے بچائے گئے 4.09بلین روپے سے831ملین روپے کی لاگت سے 32کلومیٹر طویل سیہون ریلوے کراسنگ (N-55)سے دادو براستہ ٹلٹی سے دادو۔ مورو روڈ تک کے روڈ کی بہتری،1.7بلین روپے کی لاگت سے 19کلومیٹر طویل ٹنڈو الہیار سے چمبڑ تک روڈ کی بہتری،1.4بلین روپے کی لاگت سے 29کلومیٹر طویل جہان خان (N-65)سے فیضولاڑو (N-55) براستہ چک ٹان تک روڈ کی بہتری
کے منصوبے مکمل ہوںگے۔انہوںنے بتایا کہ محکمے نے مالی سال 2019-20میں بھی اہداف حاصل کئے ہیں ۔جن میں سے 130جاری اسکیموں میں سے 198اسکیمیں جون 2020تک مکمل ہو جائیں گی ۔ 150جاری اسکیمیں مالی سال 2020-21کے دوران مکمل ہو جائیں گی۔وزیراعلیٰ سندھ اپنی بجٹ تقریر میں شعبہ زراعت کے حوالے سے بتایا کہ اس شعبے کو اس سال دوہرے مسائل کا سامنا ہے ۔ایک جانب کووڈ 19کے مسائل تو دوسری طرف ٹڈی
دل کی موجودگی سندھ کی معیشت پر خطرے کی طرح منڈلارہی ہے۔ ٹڈی دل کی ان سرگرمیوں کے نتیجے میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ خریف کی فصل 2020کو 30319ٹنزکاپیداواری نقصان ہونے کا خطرہ ہے۔ ربیع کی فصل 2020-21کے مالی سال کے مطابق اس میں تقریبا 340077کا نقصان ہوسکتا ہے۔ اس تباہ کن منظر نامے میں سندھ حکومت زرعی شعبہ میں بہتری لانے کے لئے پر عزم ہے۔ جس کے لئے آئندہ مالی سال 2020-21میں
14.8بلین روپے کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ اس کے مد مقابل مالی سال 2019-20میں 10.6بلین روپے مختص کئے گئے۔ موثر کنٹرول آپریشنز کے لئے وسیع پیمانے پر نگرانی کے عمل کے لئے فیلڈ ٹیموں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ٹڈی دل کے غولوں سے نمٹنے کے لئے گاڑیوں، ٹریکٹر، سولر پاور اور اسپرئرز اور ہینڈ اسپریئرز میں اضافہ کیا گیا ہے۔ فیلڈز کی ٹیموں کو نگرانی بڑھانے اور موثر طریقے سے ٹڈی دل کنٹرول آپریشنز کرنے کے لئے
GPSکی فراہمی کی جا رہی ہے۔مجموعی پیداوار کو بڑھانے اور معیشت کو چلائے رکھنے کے لئے مختلف اقدامات اٹھائے گئے ہیں ۔کچھ اہم اقدامات کو اجاگر کیا جا رہا ہے جس میں خستہ حال موجودہ مشینری کی مرمت کے لئے 440ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ زرعی شعبہ میں بہتری کے لئے 110ملین روپے واٹر کورسز کی مرمت و بحالی کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ لاکھوں روپے مالیت کی خستہ حال مشینر ی سندھ کے مختلف ورک
شاپس میں رکھی ہے ۔اس مشینری کی فعالیت و مرمت کے لئے بجٹ میں 200ملین روپے رکھے گئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک کے تعاون سے جسمانی نشوونما میں کمی کے پروگرام کے تحت سندھ حکومت نے 450ملین روپے مختص کئے ہیں۔ زراعت کے شعبہ میں مجموعی طور پر 5.5بلین روپے ADP 2020-21میں مختص کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے ۔جس میں زراعت، خوراک، جنگلات، جنگلی حیات اور لائیو اسٹاک اینڈ فشریز کے
محکموں کی 73اسکیمیں شامل ہیں۔ صوبائی ترقیاتی بجٹ کے وسائل کے ساتھ 8.1بلین روپے (فارن پراجیکٹ اسسٹنس) کے تحت فراہم کئے جائیں گے۔ورلڈ بینک کے تعاون سے سندھ ایگریکلچر گروتھ پروجیکٹ (لائیو اسٹاک کمپوننٹ) میں 2.6بلین روپے کی سرمایہ کاری کی جائے گی، جس کے تحت 60ملک چلرز، ٹنڈو جام میں مصنوعی انسیمینیشن (insemination)ٹریننگ سینٹر کا قیام، بارشوں سیلاب سے متاثرہ 78ویٹرینری انسٹی
ٹیوٹس کی بحالی مکمل ہو چکی ہے ۔ ان غذائی قلت اور ایکسلیریٹڈ پلان کے ان دونوں ذیلی شعبوں میں 7.5بلین ملین روپے کی خاطر خواہ سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ رواں مالی سال 2019-20میں اس شعبہ میں اہم اہداف حاصل کئے گئے ،جس میں ڈولپمنٹ /رجسٹرڈ اقسام کی پیاز، بھنڈی، چاول اور آم کی فصلیں،9000پلانٹیلٹس کی ٹشو کلچر ٹیکنالوجی کے ذریعے لیباریٹری میں تیاری، اور کاشتکاروں کو سبسڈی کے نرخ پر فراہمی، معیاری بیجوں
کی پیداوار میں مزیر بہتری،23949اور 7091مٹی اور پانی کے نمونوں کی زرخیزی اور اس کی مناسب حیثیت کی تفصیلی جانچ، اور 22ایگرو مچھ ٹیکنالوجی سروسز سینٹرز (ATSC)کا قیام شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال 2020-21کے اہداف حاصل کرنے کے لئے ہیں ۔ٹراپیکل فروٹس Tropical Fruits کو نئے حالات سے مانوس اور موافقت پیدا کرنا، بائیوفورٹیفیکیشن ٹیکنالوجی پروجیکٹ کا آغاز کرنا ،جس کے ذریعے چاول اور
گندم فصلوں میں زنک کی کمی کو پورا کرنا، سندھ انسٹی ٹیوٹ فار بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جنیاتی انجینئرنگ کا قیام، سوائل مائیکرو بائیپسی اینڈ مائیکرو نیوٹرینٹ ریسرچ لیباریٹری کا اوچرڈ نیوٹرینٹ میں قیام، منیجمنٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ، میر پور خاص Grow More Cotton مزید کپاس اگا مہمچلانے کا آغاز،باغبانی اور سبزیوں کے کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے لئے اسکل ڈولپمنٹ اینڈ منیجمنٹ پروگرام کا آغاز ،فصل کے بعد ہونے
والے نقصانات کو ختم کرنے کے لئے کولڈ چین منیجمنٹ سسٹم کا قیام، کسانوں کو سبسڈی ریٹ پر سولر پمپ اور سولر ٹیوب ویل کی فراہمی، سندھ کے بارانی علاقوں میں رین واٹر کے ذخائر کے لئے 50پانی ذخیرہ کرنے کے ٹینکس کی تکمیل، اے ڈی پیADPاسکیم اور ماڈرن ایگرو کی شروعات،اورفصلوں کی پیداوار کو بہتر بنانے کے لئے ہائیڈرو لوجیکل ٹیکنیکس پروجیکٹ شامل ہیں۔انہوںنے کہا کہ مختلف اضلاع میں نئی سبزی اور فروٹس
مارکیٹس کا قیام ورلڈ بنک کے تعاون سے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت عمل میں لایا جائے گا۔سندھ ایگرو کلچرل گروتھ پروجیکٹ (SAGP)صوبہ سندھ میں شروع کیا گیا ہے۔ سندھ کے مختلف اضلاع کے کھجور، چاول اور پیاز کی فصلوں کے علاقوں میں آلات اور مشینری کی فراہم اور تقسیم کی گئی ہے۔منصوبہ بنایا گیا ہے کہ SAGPکے تحت مختلف قسم کے آلات کی استعدا کار میں اضافے کے لئے فراہم کئے جائیں گے۔ جس میں
400پیڈی تھریشر، 400روٹا ویٹرز،50آٹو لوڈرز، 500ٹریکٹر ٹرالی اور 20000بیٹری آپریٹڈ پاور شامل ہیں۔68000کسانوں کو بہتر زرعی طریقوں کی تربیت دی گئی ہے جن میں 4000خواتین بھی شامل ہیں ۔ مرچ اور کھجور کی پیداوار میں 10فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔۔ سندھ کی آبی اور زرعی پیداوار بڑھانے کے لئے 418واٹر کورسز کو 2019-20میں بہتر بنایا گیا ہے۔ 619واٹر کورسز کو بہتر بنانے کے عمل میں ہیں ۔ڈوپ اریگیشن
سسٹم 84فارموں پر تنصیب کیا گیا جو کہ1265ایکڑ رقبے پر محیط ہوگا۔ 81ڈیپ ریپنگ کے آلات کاشتکاروں اور خدمات کی فراہمی کرنے والوں کو فراہم کئے گئے ہیں۔سندھ بھر میں جسمانی نشوونما میں کمی اور غذائی قلت کم کرنے کے ایکسی لیریٹڈ پلان کے تحت Nutrition Sensitive Agriculture Project ہے۔اس پراجیکٹ کے تحت سوشل موبیلائزیشن کے ریسرچ اور سرویز سات ضلعوں میں کئے گئے سات سیمینار صوبائی اور ضلعی
سطح پر 2019-20میں منعقد کئے گئے ۔رواں مالی سال میں زرعی برادری کی صلاحیت سازی کی لئے کیپیسٹی بلڈنگ پر بھی کام ہوا۔کوویڈ 19کا سامنا کرتے ہوئے ہم نے ایک اور قومی ہنگامی صورتحال کا سامنا کیا۔ جب ٹڈی دل سندھ میں دوبارہ نمودار ہوا اور مئی 2019میں یہ سب سے پہلے ظاہر ہوا۔ اس سلسلے میں فوری طور پر وفاقی حکومت کو مطلع کردیا گیا تھا۔ محکمہ زراعت سندھ نے پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے ساتھ قریبی روابط استوار
کرتے ہوئے فوری طور پر زمینی اسپر ے کا عمل شروع کیا۔ 2020میں ٹڈی دل پہلی بار 8اپریل 2020 کو ضلع گھوٹکی میں اور 12اپریل 2020 کو کشمور میں رپورٹ ہوا۔ ان کی موجودگی سندھ کے 22اضلاع میں رپوٹ ہوئی ،جن میں جیکب آباد، شکار پور، لاڑکانہ، کشمور، گھوٹکی، سکھر، خیرپور، مٹیاری، دادو، کراچی (گڈاپ اور ملیر)، جام شورو، حیدر آباد، بدین، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہیار، ٹھٹھہ، میر پور خاص، عمر کوٹ، تھرپارکر، شہید
بینظیر آباد، سانگھڑ، نوشہرو فیروز اور شہداد کوٹ شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ ٹڈی دل کی وجہ سے اب تک 35576ہیکٹر رقبے پر مختلف فصلیں بشمول کاٹن، سبزیاں، گنے، چارہ، مرچ، اور دیگر کو نقصان پہنچا۔وفاقی حکومت کی جانب سے بہت ہی دھیما رد عمل سامنے آیا۔ محکمہ زراعت کو بر وقت اور فوری اقدامات اٹھانے پڑے۔ محکمہ زراعت نے 1000اسپریئرز، 300سولو پاوراسپریئرز،6ٹریکٹرز پر نصب اسپریئرز اور 25گاڑیوں کے
ساتھ گاڑیوں پر نصب ہونے والے 70اسپریئرز خریدے۔ ایک اور 21گاڑیوں کا ایک بیڑہ بھی اس میں شامل کیا گیا ۔125000لیٹرز لمڈا ECکیڑے مار ادویات کو خریدا گیا جو کہ استعمال ہو رہی ہے۔ مجموعی طور پر 7389757ہیکٹر رقبہ پر سروے کیا گیا۔ 38893ہیکٹر متاثرہ رقبے پر 13جون 2020تک اسپرے کیا گیا ۔انہوںنے کہا کہ ایگریکلچر ایکسٹینشن ونگ کو جاری کردہ فنڈز 335.095 ملین روپے،گاڑیوں،اسپریئرز، کیڑے
مار ادویات کی خریداری، POL اور فیلڈ اسٹاف کی سہولت کے لئے DPP GOPکو جاری کردہ فنڈز 10.000 ملین روپے،پی او ایل POLکی خریداری ائر کرافٹ اور کیڑے مار ادویات کے لئے. متاثرہ ضلع کے DCsکے لئے جاری کرد ہ فنڈز 16.000 ملین وپے،گھوٹکی، سانگھڑ، تھرپارکر،، عمر کوٹ، خیر پور کے علاقوں کو صحرا کی ٹڈی دل سے نمٹنے کے لئے NDMAکو جاری فنڈز 2.500 روپے،1.00ملین ڈپٹی کمشنرز میں
تقسیم ہوئے ایگری کلچر ایکسٹینشن ونگ کو جاری کردہ فنڈز 286.400 ملین روپے،21گاڑیوں کی خریداری GPSگاڑی اسپریئرز کی تنصیب کے ساتھ اور Pesticide EC as per NAP پاک فوج کے تعاون سے سروے اینڈ کنٹرول آپریشن زرعی اور ریگستانی علاقوں میں کیا جارہا ہے ۔پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ حکومت پاکستان کو ضلع گھوٹکی، کشمور، خیر پور اور سکھر میں جاری کنٹرول آپریشن میں معاونت فراہم کی جارہی ہے۔وزیراعلیٰ
سندھ نے کہا کہ ہم بڑے پیمانے پر نگرانی اور کنٹرول کے لئے فیلڈ ٹیموں کی تعداد بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ٹڈی دل کے غولوں سے نمٹنے کے لئے گاڑیوں، ٹریکٹر مانٹڈ سولو پاور اسپریئرزاور ہینڈ اسپریئرزکو بڑھایا جائے گا۔ ٹڈی دل کی موثر نگرانی کرنے اور کنٹرول آپریشنز کے لئے فیلڈ میں موجود ٹیموں کو GPSآلات فراہم کئے جائیں گے۔حکومت سندھ کی جانب سے 6ائر کرافٹس ULVاسپریئرز، کیڑے مار دواں سمیت ULV
LambdaCyhalothrine Emulsified Concentrate (EC) کی وافر مقدار میں فراہمی اور ضروری فیلڈ ٹیموں کی تعیناتی کا وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے۔حکومت پاکستان کی جانب سے فضائی آپریشن جاری رکھنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ وفاقی حکومت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مشترکہ کاوشوں سے قومی ایکشن پلان وضع کیا ہے جس کا مقصد موجودہ افزائش گاہوں کے ساتھ ساتھ ٹڈی دل کے بیج اور انڈوں کو بھی تباہ
کرنا ہے۔ آئندہ سیزن میں ٹڈیوں کی دوبارہ افزائش اور ان سے بچا کے لئے حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔ اس منصوبے کی کل لاگت 930.9ملین روپے ہے جس میں حکومت پاکستان کا حصہ 204.0ملین روپے ۔سندھ حکومت کی جانب سے 726.8ملین روپے ہے۔ اس منصوبے کے تین مراحل ہیں:موسم سرما۔ بہارفروری سے جون 2020افزائش،موسم گرما۔ مون سون جولائی سے دسمبر 2020،موسم سرما۔ بہارجنوری سے جون 2021 افزائش
شامل ہیں ۔سید مراد علی شا ہ نے بجٹ میں محکمہ بلدیات کے حوالے سے کہا کہ ہم جمہوریت اور جمہوری اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔ ہماری حکومت نے ایک آمر کے لائے گئے بلدیاتی نظام کو سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001کے تحت ختم کیا۔ سندھ اسمبلی سے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013نافذ کیا۔ صوبے کے لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے کے لئے ہماری حکومت مقامی حکومتوں کے ساتھ کام کر تی ہے۔ کارکردگی کو بہتر
بنانے کے اور وقتا فوقتا تمام لوکل کونسلز کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حکومت سندھ نے لوکل کونسلز کے شیئرمیں اضافہ کیا ہے۔ سندھ کی لوکل باڈیز کے لئے 2019-20میں 74.5بلین روپے مختص کئے گئے تھے 30مئی 2020تک تمام لوکل کونسلز کو 67.5بلین روپے جاری کئے جا چکے ہیں۔حکومت سندھ نے رواں مالی سال 2019-20میں سندھ کی لوکل باڈیز کے لئے مختص کردہ 74.5بلین روپے کی گرانٹ میں آئندہ مالی سال
2020-21کے لئے 5فیصد اضافہ کرکے اسے 78بلین روپے کیا ہے۔ حکومت سندھ کے ایم سی کے مالی بوجھ کو اٹھانے میں بھی حصہ دار ہے ماہانہ بنیاد پر ریگیولر او زیڈ ٹی اکانٹ شیئر، ریگیولر پینشن اور ریگیولر گرانٹ ان ایڈ(مالی معاونت) کے لئے بالترتیب 160ملین روپے، 430ملین روپے اور 215.4ملین روپے جاری کرتی ہے، جوکہ کل رقم 805.5ملین روپے بنتی ہے۔ سالانہ کل رقم 10بلین روپے ہے جس میں 293.2ملین روپے ایک بار
کی اسپیشل گرانٹ ان ایڈ بھی شامل ہے۔ تنخواہیں /پینشن دینے اور غیر ترقیاتی اخراجات کے لئے ماہانہ بنیاد پر کے ڈی اے کو گرانٹ ان ایڈ (مالی معاونت) کی مد میں 204ملین روپے جاری کئے جا رہے ہیں۔رواں مالی سال 2019-20کے دوران کے ڈی اے کو گرانٹ ان ایڈ(مالی معاونت) جاری کئے۔ایک بار اسپیشل گرانٹ ان ایڈ (مالی معاونت) کے لئے بالترتیب 2.4بلین اور 470.7ملین روپے جاری کئے گئے ہیں۔حکومت سندھ 2016سے کراچی
واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے بجلی کے بلوں کی بھی ادئیگی کر رہی ہے ،جو کہ 2019-20تک تقریبا 6 بلین روپے تک ہوچکی ہے۔رواں مالی سال 2019-20میں 315جاری اسکیموں اور 93نئی اسکیموں کے لئے 34.7بلین روپے مختص کئے گئے،جن میں گریٹر کراچی واٹر سیوریج پروجیکٹ (S-III)اور گریٹر کراچی واٹر سپلائی پروجیکٹ (K-IV)کی اسکیمیں بھی شامل ہیں۔ ان اسکیموں پر 15مئی2020تک 11.4بلین روپے خرچ کئے گئے
ہیں ۔جاری اسکیمیں جو کہ نفاذ کے ایڈوانس لیول تک پہنچ گئی ہیں پر خاص زور دیا گیا ہے۔اے ڈی بی پی 2019-20 میں پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اور محکمہ بلدیات کی واٹر سپلائی اینڈ سینیٹیشن اسکیموں کے لئے 398بلین روپے مختص کئے گئے۔ کچھ اہم اسکیموں میں واسا حیدر آباد کی تازے پانی کے ذخائر میں سیوریج اخراج کے خاتمے اور494غیر فعال واٹر سپلائی اور سیوریج کی اسکیمیں شامل ہیں۔ ان اسکیموں پر 5جون 2020تک 11بلین روپے
کے اخراجات آچکے ہیں جو کہ شاید جون کے آخر تک بڑھ سکتے ہیں۔محکمہ بلدیات اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی واٹر سپلائی اور سینیٹیشن کی 300اسکیموں کے لئے 19.3بلین روپے مختص کئے گئے ہیں اس کے علاوہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے لئے میگا پروجیکٹ کراچی واٹر اینڈ سیوریج سروسز امپرومنٹ پروجیکٹ منظور کیا گیا ہے ،جس پر ورلڈ بنک کی مالی معاونت کے ساتھ کل 3.4بلین روپے کی لاگت آئے گی۔ سندھ انٹر سیکٹورل
نیوٹریشن پروگرام کے ساتھ ساتھ صاف ستھرا سندھ (SSS) پروگرام بھی شروع کیا گیا ہے۔ ان دونوں پروگراموں کا مقصد صفائی ستھرائی اور گندے پانی کی نکاسی کے ذریعے سندھ کے دیہی علاقوں میں غذائیت کو بہتر بنایا جاسکے۔ اس پروگرام کا مقصد 2025تک سندھ کو اوپن ڈیفکشن فری (ODF)قرار دینا ہے۔انہوںنے کہا کہ صاف ستھرا سندھ پروگرام عالمی بنک کی مدد سے سندھ کے 13اضلاع میں شروع کیا گیا ہے ،جس کے ذریعے دیہی
علاقوں کی 50فیصد آبادی یا 2ملین افراد تک رسائی حاصل کی جائے گی جب کہ صاف ستھرا سندھ پروگرام سے فائدہ حاصل کرنے والوں کی آدھی شرح خواتین کو ہوگی۔ اس پروگرام کے لئے عالمی بنک تعاون کر رہا ہے ،جس کی کل لاگت 3.4بلین روپے ہے ،جس میں سندھ حکومت کا حصہ900ملین اور عالمی بنک کا حصہ 2.5بلین روپے ہے۔کووڈ 19کے باعث اس پروگرام کی کچھ سرگرمیوں میں تبدیلی کی گئی ہے۔ان دیہی علاقوں میں صاف
پانی اور سینیٹیشن کی بنیادی سہولیات مہیا کرنا ہیں جہاں صاف پانی موجود نہیں، وہاں سماجی تحریک کو تیز کرنا، صحت سے متعلق رویوں میں تبدیلی، اسکولوں میں صحت و صفائی سے متعلق آگاہی اور بیت الخلا کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ہاتھ دھونے کے مقامات کا قیام بھی شامل ہے۔سندھ حکومت نے عالمی بنک کے تعاون سے کامپی ٹیٹو اینڈ لائیبل سٹی آف کراچی (CUCK)پروجیکٹ 33.600ملین روپے کی لاگت سے شروع کیاہے جس کا مقصد کراچی
کے بنیادی ڈھانچے کی بہتری اور میٹروپولیٹن سٹی کی تمام کونسلز کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہے۔ یہ پروجیکٹ 2025میں مکمل ہوگا۔انہوںنے کہا کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج سروسز امپروومنٹ پروجیکٹ (KWSSIP)ایک ایسا منصوبہ ہے جس سے کراچی میں پانی اور سیوریج کے پرانے نظام کے ڈھانچے کی ترقی میں تیزی آئے گی۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ پاکستان کی 2017کی مردم شماری کے مطابق سندھ کی
آبادی47,886,051ہے ،جس میں 22,956,478خواتین پر مشتمل ہے جو کہ آبادی کا 47فیصد ہے ۔خواتین ہر شعبہ زندگی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ سندھ حکومت خواتین کی ترقی اور بہبود پر خصوصی توجہ دے رہی ہے ۔محکمہ کو مستحکم کرنے کے لئے کووڈ 19کے بعد آپریٹنگ اخراجات میں 5 ملین روپے کا اضافہ ہوا ہے ۔جن میں 2 ملین روپے لا چارجز ایٹ ڈائریکٹوریٹ آف وومن ڈولپمنٹ ڈپارٹمنٹ شہید بینظیر آباد کیلئے تجویز کئے گئے۔
3ملین روپے آئندہ مالی سال 2020-21میں سندھ کمیشن آف دی اسٹیٹ آف وومن ممبرز کے اعزازیہ کے لئے تجویز کئے گئے ہیں۔ کووڈ 19(کورونا) کی صورتحال کے باعث فنڈز کا استعمال انتہائی متاثر ہوا ۔منصوبے کے مطابق مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہوسکے ہیں۔ اس کے باوجود بھی اس محکمہ نے رواں مالی سال 2019-20کے اہداف حاصل کئے ہیں، جن میں چائلڈ میرج ایکٹ 2013 پر عمل در آمد، اور جاپان کو آپریشن انٹرنیشنل ایجنسی کے
تعاون سے گھریلو خواتین محنت کش کا معیار زندگی بہتر بنانا شامل ہے۔صوبائی سطح پر خواتین کے کام کرنے کے مقامات پر ہراساں کرنے کے خلاف سندھ ایسڈ کنٹرول اینڈ اڈاپشن آف پروٹیکشن اور سندھ ڈاری بل 2017پر نئی قانون سازی زیر عمل ہے۔آئندہ مالی سال 2020-21میں 206.6ملین روپے کی لاگت سے 10جاری اور نئی اسکیمیں شامل کی گئی ہیںسالانہ ترقیاتی پروگرام 2020-21کے تحت 90ملین روپے کی لاگت سے سندھ میں
ملازمت پیشہ خواتین کو اسکوٹی فراہم کرنے سے متعلق ایک نئی اسکیم کی تجویز دی گئی ہے۔ امکان ہے کہ آئندہ سال منصوبے کے مطابق ترقیاتی اسکیموں کا ہدف حاصل کیا جائے گا۔سید مراد علی شاہ نے کہا کہ اقلیتیں پاکستان سمیت سندھ کی آبادی کا اٹوٹ انگ ہیں ۔انہیں اپنے مذہب اور رسم و رواج کے مطابق زندگی گذارنے کی مکمل آزادی حاصل ہے ۔سندھ حکومت وقت بوقت اقلیتوں کو خوشحالی اور بحالی کے لئے اقدامات کرتی رہی ہے ۔مالی
سال 2019-20میں اقلیتوں کے لئے 855.6ملین روپے رکھے گئے تھے۔ آئندہ مالی سال کے لئے 1.5ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ سندھ کی اقلیتوں کے لئے مالی سال 2019-20میں گرانٹ ان ایڈ کی مد میں 750ملین روپے کا فنڈ مختص کیا گیا ۔فنڈ اقلیتی ممبران پر مشتمل کمیٹیوں کے ذریعے استعمال کیا گیا۔رواں مالی سال 2019-20میں اقلیتوں کے 102مقامات کی تزئین و آرائش، عمارتوں کے اسٹرکچر کی تعمیر و مرمت کے لئے 638.5ملین روپے
رکھے گئے تھے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ سندھ حکومت سماجی بہبود کو مضبوط بنانے اور کوروناکے موجودہ حالات میں غریب عوام کی مشکلات کو ختم کرنے اور سہولیات فراہم کرنے کے لئے سر فہرست رہی ہے۔ مالی سال 2020-21میں محکمہ سماجی بہبود کا بجٹ 1.8بلین روپے سے بڑھا کر 27.1 بلین روپے کیا گیا ہے، جو کہ مجموعی طور پر 1360فیصد اضافہ ہے۔ اس سے قبل ذکر کیا گیا ہے کہ 20بلین روپے سندھ پیپلز سپورٹ پروگرام
کے لئے مختص کئے گئے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ دیگر منصوبو ں میں 100ملین روپے کی لاگت سے ڈویژنل سطح پر ایس او ایس(شیلٹر ہومز) کا قیام،دارالخشنود کے لئے 3 ملین روپے اور سندھ چیرٹی رجسٹریشن کمپنیوں کے لئے 5 ملین روپے مختص کرنا ،شانتی نگر اور ملیر کراچی میں 50ملین روپے کی لاگت سے 2لاسٹ اینڈ فانڈ چلڈرن سینٹرز کا قیام،12.5ملین روپے کی لاگت سے 10نئی گاڑیوں کی فراہمی،دادو اور گمبٹ کے ٹی بی پیشنٹس ایسوسی
ایشن کے لئے 1ملین روپے کی گرانٹ ان ایڈ میں اضافہ،دارالامان کی سیکیورٹی میں اضافے کے لئے 7ملین روپے کا اجرا،سندھ سینئر سٹیزنز ویلفیئر فنڈ کے لئے 30ملین روپے مختص کرنا اور دوران ملازمت فوت ہوجانے والے ملازمین کے لواحقین کی مالی امداد کے لئے 15ملین روپے مختص کرنا شامل ہیں ۔انہوںنے کہا کہ ہم نے متعدد ترقیاتی اسکیمیں شروع کی ہیں جو کہ مکمل ہونے کو ہیں۔ جن میں سول سوسائٹی آرگنائزیشن کورنگی کے ذریعے
فائدہ حاصل کرنے والے اسٹریٹ چلڈرن کی بحالی کے لئے دارالاطفال کا قیام و استحکام، میر پور خاص اور جیکب آباد میں 100افراد کی گنجائش کے حامل دارالامان کا قیام، کراچی میں 10افراد کی گنجائش کے حامل ڈرگ ایڈکٹ افراد کی بحالی کے مرکز، اور دارالامان سکھر کی مرمت اور سہولیات میں بہتری کے منصوبے شامل ہیں۔سندھ کابینہ کے21نومبر 2019کے اجلاس کے فیصلے کی روشنی میں مغربی پاکستان کے فیملی کورٹ ایکٹ
1964میں ترامیم کی گئی ہیںجن کے تحت آئندہ مالی سال 2020-21 میں تمام غیر سرکاری تنظیموں اور نان پرافٹ تنظیموں کے سندھ چیرٹی رجسٹریشن ایکٹ 2019کے تحت رجسٹر کی جائیں گی۔سید مراد علی شاہ نے بتایا کہ پی پی پی کے تحت نجی شعبے کے باعث معیاری سروسز کی فراہمی،رسائی اور شکایات میں بہتری آئی ہے۔سندھ حکومت نے پی پی پی کے تحت 38.75کلومیٹرز طویل ملیرایکسپریس وے پروجیکٹ متعارف کروا کر ایک
اور وعدہ پورا کیا ہے ۔اس پروجیکٹ کے لئے شفاف اور موثر عالمی نیلامی کا عمل مکمل کیا گیا۔یہ پروجیکٹ 27.5بلین روپے کی نیلامی پر دیا گیا ۔اس شفاف نیلامی کے نتیجہ میں سندھ حکومت کو اربوں روپے کی بچت حاصل ہوئی ۔اس پروجیکٹ کی تکمیل سے ایک گھنٹہ سے زائد کا سفر 25منٹ میں طے ہو سکے گا۔یہ پروجیکٹ شہر کراچی کا مضبوط ذریعہ مواصلات بننے کے ساتھ ساتھ شہر کا بنیادی ڈھانچہ مضبوط کرے گا ۔جبکہ ارد گرد
کے علاقوں میں ترقی کے نئے سفر کا آغاز ہوگا۔دریائے سندھ پر 2.75 کلومیٹر طویل گھوٹکی کندھ کوٹ پل کی تعمیر شروع کر دی گئی ہے انشا اللہ یہ پروجیکٹ ڈھائی سال کی مدت میں مکمل ہوگا ۔دونوں شہروں کے درمیان فاصلہ 150کلومیٹر سے کم ہو کر انداز30کلومیٹر ہوجائے گا ۔پل کی تعمیر سے گھوٹکی اور کندھ کوٹ کے شہریوں کے لئے معاش کے بے شمار مواقع پیدا ہوں گے۔ ان دونوں اضلاع میں تیل و گیس کی بڑی کمپنیاں پاور
پروجیکٹ اور کھاد کے پلانٹس موجود ہیں۔رواں مالی سال کے دوران خریداری کا پانچواں مرحلہ مکمل ہونے کے بعد 139پبلک سیکٹرا سکولز پی پی پی موڈ پر ہیں، جن میں 70000سے زائد طالب علم زیر تعلیم ہیں ۔نتظام پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت اچھی شہرت کے حامل تنظیموں کو دیا گیا ہے ۔محکمہ تعلیم و خواندگی کے مقامی اہلکار، ارد گرد کی کمیونیٹیز، اسٹاف، طالب علم عملہ اور اسکو ل انتظامی کمیٹی کے ساتھ کام کر رہے ہیں ۔اس
اقدام سے آئین پاکستا ن کے آرٹیکل 25E اور سندھ حکومت کی جانب سے منظور کردہ سندھ رائٹ آف چلڈرن فری اینڈ کپلسری ایجوکیشن ایکٹ 2013پر عملدرآمد یقینی بنایا جا رہا ہے۔انہوںنے بتایا کہ پی پی پی کے تحت نجی شعبوں کے حوالے کی گئی صحت کی 161سہولیات کے ذریعے سالانہ تقریبا6ملین مریضوں کو علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔پی پی پی موڈ کے تحت چار ریجنل بلڈ سینٹرز RBC)عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔
موجودہ وبائی صورتحال میں جہاں تھیلیسیمیا کے مریضوں کو خون کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہاں یہ سنٹرز مریضوں کو بلا رکاوٹ خون فراہم کر رہے ہیں۔سندھ حکومت نے منفرد پی پی پی موڈ کے تحت چند بڑے منصوبوں کو آئندہ مالی سال 2020-21میں شامل کیا ہے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے ایشیائی ترقیاتی بنک کے پی پی پی یونٹ اور آفس آف دی پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ(OPPP)کی معاونت سے 50ایم جی ڈی میونسپل ویسٹ واٹر
ریسائیکلنگ پروجیکٹ بنایا ہے۔یہ منصوبہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہوگا جو کہ صنعتی علاقوں کے سیوریج کے پانی کو صنعتی استعمال میں تبدیل کرے گا۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی ضروریات واٹر سپلائی کے بنیادی ڈھانچے کے استعمال، مرمت، ترقی، تبدیلی اور قیام کے لئے کام کرے گا۔ انہوںنے کہا کہ حکومت سندھ نے مائننگ اور توانائی کی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لئے بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کے لئے قدم اٹھائے ہیں۔ اسی
طرح 1590میگا واٹ نئے پاور پلانٹ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا گیا ۔جس میں تھر کول پلانٹ بلاک 2کو صنعتی پانی کی فراہمی شامل ہے۔اس سلسلے میں حکومت سندھ نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ موڈ کے تحت فراہمی آب کا بڑا منصوبہ ترتیب دیا ۔جو کہ مالی سال کے اختتام تک یک سال کی ریکارڈ مدت میں مکمل ہوجائے گا۔ حکومت سندھ تین روڈ زکی ترقی، مرمت اور بہتری کے لئے مشاورتی خدمات حاصل کرے گی ۔جن میںلنک روڈ
کورنگی ایکسپریس وے ماری پور سے Yجنکشن اور()انٹر چینج آئی سی آئی پل شامل ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد اس اہم روڈ پر مخصوص اوقات میں ٹریفک کے دبا ؤکو کم کرنا ہے۔مجوزہ لنک روڈ کورنگی ایک خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ کورنگی کے لئے متبادل راستہ فراہم کرتا ہے ۔ ہنگامی صورتحال میں پاکستان ائر فورس کی ساتھرن ائر کمانڈ کو کورنگی تک راستہ فراہم کرتا ہے۔انہوںنے کہا کہ دھابیجی اسپیشل اکنامک زون (ڈی ایس ای
زیڈ) کے عظیم منصوبے کے لئے 1530ایکڑ اراضی کے حصول کا عمل جاری ہے۔دھابیجی اسپیشل اکنامک زون نہ صرف سندھ بلکہ قومی معیشت کے لئے بھی کئی حوالوں سے مفیدثابت ہوگا۔روزگار کے مواقع پیدا کرنا، صنعتی ترقی اور نیشنل جی ڈی پی پر اچھے اثرات مرتب ہونا شامل ہے۔منصوبے سے حکومت سندھ کے لئے ریوینیو میں شیئر کی صورت میں خاطر خواہ آمدنی ہونے کی توقع ہے۔انہوںنے کہا کہ ڈی ایچ کیو بدین کو انڈس اسپتال کے
حوالے کئے جانے سے مریضوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے ،اس قابل ستائش سہولت کی رپورٹس کے مطابق 990ا و پی ڈی بشمول ایمرجنسی کیسز روزانہ،سالانہ بنیاد پر 30000آئی پی ڈی کیسز بشمول سرجریز اور ڈیلیوریز اورسالانہ بنیاد پر100000 تشخیص کیسز کئے جاتے ہیں۔ انڈس اسپتال کی سروسز میں فیسیلیٹی منیجمنٹ ایس او پیز پر مشتمل ہے شامل ہے۔ سول اسپتال بدین میں بلڈ بنک جون 2016میں انڈس اسپتال کے سپرد کیا گیا۔یہ
بغیر متبادل ڈونر کے سالانہ23105محفوظ خون کے یونٹس کا مریضوں کے لئے انتظام کرتا ہے۔انہوںنے کہا کہ حکومت سندھ ماربل سٹی کی ترقی کے لئے بھی کام کر رہی ہے ۔صنعت کے لئے خاص ہے امید ہے کہ اس منصوبے سے پتھر، گرینائٹ اور ماربل کی صنعت کو فروغ ملے گا ۔انہوںنے کہا کہ حکومت سندھ نے منصوبے کے لئے ناردرن بائی پاس کے قریب 300ایکڑ اراضی مختص کی ہے۔انہوںنے کہا کہ یہ معلوماتی معیشت کا دور
ہے۔ ترقی یافتہ اقوام فنی، تعلیم اور ریسرچ کے فروغ کے لئے سرمایہ کاری کر رہی ہے ۔حکومت سندھ این ای ڈی یونیورسٹی کراچی میں ٹیکنالوجی پارک بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔غیر رسمی کے تعلیم کے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اس منصوبے کے تحت اسکولوں میں نہ پڑھنے والے 4ملین بچوں کو رسمی تعلیمی نظام میں لایا جائے گا ۔ملیر ایکسپریس وے، ٹی پی ون پر ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ،کراچی میں اربن روڈز کے لئے اقدامات،
دھابیجی اسپیشل اکنامک زون ،اور این ای ڈی یونیورسٹی میں ٹیکنالوجی پارک کے پروجیکٹس ،صوبے کے لئے خاطر خواہ سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنے کا باعث بنیں گے۔ان کے مثبت اثرات کی وجہ سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ٹیکس ریوینیو بڑ ھیں گے اور سندھ کے لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوگا۔پی پی پیز میں التوا کا شکار ادائیگیوں کا نظام بنانے کو یقینی بنایا جائے گا۔ اب تک پی پی پی پروجیکٹس 75بلین روپے تک ہو گئے ہیں۔آئندہ دو سالوں کے اندر ہم پی پی پی کے تحت 120ملین روپے کے پروجیکٹس بنانے کا اراداہ رکھتے ہیں۔